Skip to main content

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت!

یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے کسی بھی خبر کی تصدیق کے لیے آپ کو خبروں  کو سننا پڑتا تھا ،اور جیو نیوز ان دنوں  نیا نیا تھا ، میں   یہ بات وسوخ سے کہہ سکتا ہوں  کہ ہر گھر  میں   صف ماتم بچھی ہوئی تھی آپ اسے محبت کی معراج سے زیادہ کیا کہہ سکتے ہیں  کہ جب بے نظیر بھٹو اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے واپس کراچی پہنچی تھیں  تو ایک خود کش حملے  میں   سینکڑوں  کارکن زخمی و شہید ہوئے اور تب سے مسلسل ایسی خبریں  چل



رہی تھیں  کہ محترمہ کی جان کو خطرہ ہے لیکن عوام کی محبت اور عوام کی محترمہ سے محبت نے عوام کی جلسوں   میں   شرکت کو کم نہیں  ہونے دیا اور پھر یہ سانحہ ہو گیا ،یہ محبت انہیں  شہادت کے عظیم رتبہ تک لے گئی محترمہ کی سیاست اور آج کے سیاست دانوں   میں   زمین آسمان کا فرق تھا محترمہ کے قول و فعل  میں   تضاد نہیں  تھا وہ جو کہتی تھیں  کر گزرتی تھیں  لیکن آج کا سیاست دان تضادات کا مجموعہ ہے  ۔ مجھے یاد نہیں  پڑتا کہ بے نظیر بھٹو کے الیکشن  میں   حصہ لینے سے پہلے اس شدت سے عوام بلخصوص عورتوں  کی عملی سیاست  میں   حصہ لینے کی کوئی مثال ہو گی  ۔ اور محترمہ کے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ تو جاری ہے لیکن اس شدت سے بلکل بھی نہیں  اور محترمہ کا عوام سے ایک ایسا تعلق کہ گویا سارے لوگ بطور خاص عام عوام اور گھر داری کرنے والی عورتیں  انہیں  اچھے سے جانتی تھیں  ان کے جانے کے بعد ایک ایسا خلا پیدا ہوا جسے آج تک کوئی سیاست دان پورا کرنا تو دور کی بات اس کے پاس بھی نہیں  پھٹک سکا  ۔ پاکستان  میں   ہائی پروفائل لوگوں  کے قتل کا معاملہ اور اس  میں   انصاف ہونا یا عام عوام کو اس کی خبر ہونا تقریبا ۔  ۔  نا ممکن ہی ہے کیونکہ شہید لیاقت علی خان سے لے کر آج تک جتنے بھی ہائی پروفائل کیسز ہوئے ہیں  ان  میں   انصاف یا ان کی تحقیقات کا انجام بخیر نہیں  ہو سکے یہ اس ملک کی بد قسمتی ہے اور اسی وجہ سے ان سانحات کو روکا نہیں  جا سکا حالیہ دنوں  چئر میں   تحریک انصاف پر ہوئے حملہ اور اس کی ایف آئی آر پر ان کی بے بسی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ہمارے جسٹس سسٹم  میں   ابھی بہت بہتری کی گنجائش ہے  ۔  

ضروری بات!

 قارئین پاکستان کی سیاست اور اس سے جڑے واقعات کا مقصد کسی جماعت کی حماءت یا مخالفت بلکل بھی نہیں  بلکہ اس موضوع پر بات کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ایک تو حقائق کی معلومات لوگوں  تک پہنچائی جائے اور ان واقعات  میں   پوشیدہ سبق کی جانب توجہ مبذول کروانا یہ ہوتا ہے کسی بھی لکھاری کا اصل وصول ،لیکن اس مقصد کو تب تک پورا نہیں  کیا جا سکتا جب تک قارئین کی رائے ہم تک نہ پہنچ سکے لہذا اس لیے آپ اپنے قیمتی وقت سے کچھ پل نکال کر اپنی قیمتی آراء سے آگاہ رکھیں  گے  ۔ شکریہ  

ہ ایک ٹھنڈی اور تاریک رات تھی  میں   اپنی عادت کے مطابق گھر جا رہا تھا ،مجھے ایک ادھیڑ عمر شخص مل گیا نجانے

Bay Nazeer Bhuto great leader.
It was a cold and dark night. I was going home as usual. I found a middle-aged man. I didn't know where he was coming from in the dark. I asked, sir, where are you coming from? so angry he was sitting, so he said in a harsh tone, when the leader of the poor has been killed, then the same has to happen to the poor. I noticed that there were less cars on the road today, who are you talking about leader brother  , who are you talking about, he had tears in his eyes and that was it, he said while crying that Benazir Bhutto was attacked in Rawalpindi. As a result, Ms. Allah has become dear. At that time, mobile technology was not so common in Pakistan, there were mobile phones, but smart phones and social media were not so common, rather they were non-existent. So to confirm any news you had to listen to the news, and Jeo News was new in those days, I can say with confidence that every house was lined with mourning, you know it more than a love affair. What can you say that when Benazir Bhutto returned to Karachi after ending her self-imposed exile, hundreds of workers were injured and martyred in a suicide attack and since then there were continuous reports that her life was in danger but The love of the people and the love of the people for Ms. did not let the participation in public meetings decrease and then this tragedy happened, this love took her to the great rank of martyrdom. There was no contradiction in her words and deeds, she used to do what she said, but today's politician is a collection of contradictions. I do not remember that before Benazir Bhutto took part in the election, there would be any example of people, especially women, taking part in practical politics with this intensity. And even after her departure, this process continues, but not at this intensity, and her relationship with the public is such that it is as if all the people, especially the general public and women who are housewives, knew her well before her departure. Later, a vacuum was created which till date no politician has even been able to fill it. The issue of killing of high-profile people in Pakistan and justice in it or the general public getting to know about it is almost impossible. . It is impossible because in all the high profile cases that have taken place since Shaheed Liaquat Ali Khan till today, justice or their investigation could not be completed well. The attack on Tehreek-e-Insaaf in recent days and their helplessness over its FIR indicates that there is still room for improvement in our justice system.   Readers, the purpose of Pakistan's politics and related events is not to support or oppose any party at all, but the purpose of discussing this topic is only that. One is to convey the information of the facts to the people and the other is to draw attention to the hidden lessons in these events. Therefore, you will take some time out of your precious time and keep your valuable opinions informed. Thanks    

Comments

Popular posts from this blog

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...