Skip to main content

Ideal social life .don,t tell a lie



 جھوٹ اور انسانی معاشرہ ۔۔

بنی نوع انسان کی ترقی کسی شارٹ ٹرم پالیسی کے نتیجے میں ممکن نہیں اس کے لیے جہد مسلسل می ضورت ہوتی ہے اور دنیا میں وہی اقوام رتبہ اور عزت پاتی ہیں جو محنت کو اپنا شعار بناتی ہیں ۔جو اقوام ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتی ہیں وہ کسی معجزے کے نتیجے میں نہیں بلکہ محنت کو معجزہ بنا دیتی ہیں جب جب کوئی معاشرہ یا قوم محنت اور جہد مسلسل پر سچے دل سے کاربند ہو جاتی ہے اس کے لیے تحقیق کے دروازے کھلتے جاتے ہیں اور ان کی بلندیوں کا سفر شروع ہو جاتا ہے ۔لیکن بد قسمتی سے اگر کسی معاشرے میں سستی اور کائلی کی بری روایات یا عادات پیدا ہو جاتی ہیں تو ان کی ترقی کا سفر نہ صرف رک جاتا ہے بلکہ ان میں ترقی کے شارٹ روٹس پکڑنے کا رجعان پیدا ہو جاتا ہے ،کوئی بھی فرد یا معاشرہ اگر شارٹ کٹ کے ذریعے ترقی کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس معاشرہ مٰیں ایک برائی لازماََ نظر آئے گی اور وہ برائی ہے ،جھوٹ ،
جھوٹ ایک لعنت ،
جھوٹ ایک ایسی لعنت ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد پھرکسی بھی مذید برائی کے پیدا ہونے کے امکانات کئی گناہ بڑھ جاتے ہیں مثال کے طور پراگر کوئی شخص یا معاشرہ جھوٹ کو برا نہیں سمجھتا تو اس کا مطلب ہے کہ برائی کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے مثال کے طور پر ایک شخص آپکو نقلی چیز یہ کہہ کر بیچتا ہے کہ یہ اصلی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں دو عیب ہیں یعنی ایک تو وہ جھوٹا ہے اور دوسرا وہ بد دیانت ہے ،چونکہ وہ جھوٹ بولنے کو برا نہیں سمجھتا تھا اس لیے اس میں دوسری برائی پیدا ہو گئی یعنی بد دیانی ،بظاہر وہ شخص اپنے لیے نفع کما رہا ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ معاشرے میں اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے لیکن اس کو تب تک احساس نہیں ہو گا جب تک وہ اپنا مکمل اعتماد نہ کھو دے یوں ایک ایسے مقام پر پہنچ کر اس کے پاس کچھ زیادہ بچے گا نہیں سوائے اس کے کہ وہ اسی ڈگر پر چلتا رہے اور برائی کی دلدل میں دھنستا جائے ،
جھوٹے بیانیے اور میڈیا کا کردار ۔
پہلے وقتوں میں ایک جھوٹ کی ترویج کا ایسا کوئی نظام موجود نہیں تھا کہ راتوں رات اس کو پھیلایا جا سکے اس کا مثبت نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ بہت سی منفی باتیں اس قدر نہیں پھیلتی تھیں سو اس کے پھیلانے والے کا وقت اور اس کے پھیلنے کی نسبت لوگوں کے رجحانات کی نسبت رائے قائم کرنا کسی کے بس میں یا کنٹرول میں نہیں ہوتا تھا لیکن موجودہ دور میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیکنڈوں میں کسی بھی بیانیہ  کی ترویج ممکن ہے سو بلا تصدیق ایک ایسی بات یا بیانیہ کو دوسروں تک پھیلانا ایک عام سی بات بن گئی ہے دوسروں کی پگڑی اچھالنی ہو یا مخالفین کو زیر کرنا ایک ایسا پلیٹ فارم جس سے آپ لوگی کی اخلاقی تربیت کر کے ایک مثالی معاشرے کی تکمیل کر سکتے تھے اس سے منفی رجحانات کی ترویج کا کام لینا باعث ندامت ہونا چاہیے لیکن اب تو پاکستان کی تقریباَتمام ہی سیاسی جماعتوں نے ایسے ونگز بنا لیے ہیں جن کا کام ہی صرف بیانیے بنانا اور ان بیانیوں کی ترویج کے لیے ہر حد تک جانا ہے سو ایک ایسی فضا تیار کی جا رہی ہے جس میں اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے جو کہ بہت ہی خطر ناک اور قابلِ مذمت ہے ۔
سیاست دان اور جھوٹے بیانیے ۔
پاکستان ایسے ملکوں میں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے جھوٹ بولنے کو بلکل بھی برا نہیں سمجھا جاتا ۔خاص کر ہمارے سیاستدان اور ان کے سپورٹرز تو بلکل بھی نہیں سب سے زیادہ لوگ سیاستدانوں کو لوگ فالو کرتے ہیں اور سب سے زیادہ جھوٹے بیانیوں کی عمارت کھڑی کرنے کے ماہر بھی یہی لوگ ہوتے ہیں یعنی آپ با آسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو جتنا اچھا بیانیہ بنائے گا اتنا کامیاب ہو گا اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ بیانیہ جھوٹا تھا یا سچا ۔،

اس سلسلہ کو قارئیں ہم جاری رکھی گے لیکن آپ اس بارے میں یعنی جھوٹ کو کتنا برا سمجھتے ہو یہ جاننا لازمی ہے اس لیے آپ اپنی قیمتی آرا کا اظہار لازمی کیجیے گا ہمیں آپکی آرا کا انتظار رہے گا      شکریہ  
---------------------------------------------------------
 Lies and human society.
The development of mankind is not possible as a result of any short-term policy, for this, Jihad is a constant struggle and those nations who make hard work their motto get rank and respect in th ful; itt does not matter whether that narrative was false or true.

   e world. They are not the result of a miracle, but they make hard work a miracle when a society or a nation is committed to hard work and struggle with a sincere heart, the doors of research are opened for them and their journey to heights begins. But unfortunately, if laziness and bad traditions or habits are created in a society, then their journey of development is not only stopped, but there is a tendency to take short-cuts of development in them. Even if an individual or a society tries to progress through a shortcut, if it is closely examined, then you will know that one evil will inevitably appear in this society and that is evil, lies,
lies are a curse,
Lying is such a curse that after it is born, the chances of any further evil to be born increases many sins. For example, if a person sells you a fake thing saying that it is genuine, then it means that it has two defects, one is that he is a liar and the other is that he is dishonest, because he does not want to lie. He did not understand evil, so another evil arose in him, that is, bad faith. Do not lose complete confidence and reach a point where he will have little left but to continue on the same path and sink into the mire of evil.
False narratives and the role of the media.
In earlier times, there was no such system of promotion of a lie that it could be spread overnight. It used to be that no one was able to form an opinion about the tendencies of the people, but in the current era, any narrative can be promoted in seconds through electronic media and social media, so without confirmation, such a thing or narrative can be spread by others. It has become a common thing to spread the turban of others or to subjugate the opponents. It should be regretted, but now almost all the political parties of Pakistan have created wings whose only job is to create narratives and go to any extent to promote these narratives, so an atmosphere is being created in which so many lies are being spread. Say that the policy of telling the truth is being adopted, which is very dangerous and condemn able.
Politicians and false narratives.
Pakistan In such countries as mentioned above, lying is not considered bad at all, especially our politicians and their supporters, not at all. These are the people who are experts in erecting a building, that is, you can easily say that whoever makes a good narrative will be successful, it does not matter whether that narrative was false or true.

Readers, we will continue this series, but it is important to know how bad you think lies are, so you must express your valuable opinion. We will be waiting for your opinion. Thank you.

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...