Skip to main content

Ideal social life

                                                                                                            شاید کہ ایسا وقت بھی ہو ترتیب وقت میں 
                                                                                                            دستک کو تیرا ہاتھ اٹھے لیکن میرا در نہ 

  پاکستان میں جب کرونا آیا تو مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ ساری اشرافیہ مل کر اسے غریبوں کی آفت یا غریبوں کیلیے آفت نہ بنا دے۔بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر سچ یہی ہے۔کرونا کو اگر کسی نے  بھگتنا ہے تو صرف اور صرف غریب لوگوں نے۔اشرافیہ نے اسے بھی اپنی کمائی کا زریعہ بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا  یہ تو ایک انعام سے کم نہیں کہ بیماری سے اموات کم ہوئیں اور لوگ جلدی اپنے اپنے روزگار کو لوٹ گئے  ورنہ لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن کے درمیان فرق کو سمجھتے لوگ گزر جاتے اور اشرافیہ ٹاک شوز میں اپنے اپنے فلسفے کی تعبیر کرتی اور داد و تعسین بٹورتی۔حالیہ سیلاب کے بعد بھی غالب امکان یہی تھا اور ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بکھرے تنکوں سے اپنے اپنے آشیانوں کی مرمت کو بے آسرہ رہ جائے۔آپ معاشرتی بے حسی کا عالم ملاحظہ فرمائیے قد آور سیاسی پنڈتوں نے زمین کا وہ ٹکڑا  جو پانی سے محفوظ تھا خوب سیاسی دنگل سجائے اور ریاست مدینہ کے خدوخال اور سیاسی جہاد پر لوگوں کو آمادہ کرنے کی مکمل سعی کر لی۔

یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس قومی بے حسی کی قیمت چکانے کندھا غریب کا ہو گا یا اب کی بار گریبان چاک          کروانے کی باری کسی اور کی  

       Maybe there will be such a time in time 
                                       Let your hand knock, but not my door                                  
   When Corona came to Pakistan, I was afraid that all the elites would not make it a disaster for the poor or a disaster for the poor. Many people may disagree but this is the truth. If anyone suffers from Corona, only And only the poor people. The elite did not waste any opportunity to make it a source of their income. It is no less than a reward that the deaths due to disease reduced and people quickly returned to their jobs, otherwise lock down and smart lock down. People would pass by understanding the difference between and the elites would explain their philosophy in talk shows and give praise. Even after the recent flood, the most likely possibility was and still is that a large number of people repaired their nests with scattered straws. You should be left helpless. You see the world of social indifference. The tall political pundits made a political mess on that piece of land that was safe from water and tried to persuade people to join the state of Medina and political jihad. .
Only time will tell whether it will be the poor who pay the price of this national indifference or it will be someone else's turn to be choked.

   

                                                         


Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...