خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے پھوچھے بتا تری رضاء کیا ہے
عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ضمیر جاگ ہی جاتا ہے ،اگر زندہ ہو اقبال
کبھی گناہ سے پہلے، کبھی گناہ کے بعد
کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرےپروردگار سے
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نیہں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہءِ گندم کوآگ لگادو
کسی کی نظر میں اچھے تھے ،کسی کی نظر میں برے تھے
حقیقت میں جو جیسا تھا ،ہم اسکی نظر میں ویسے تھے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مر مر پپہ چلو گے توپھسل جائوگے
تندئِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانےکیلیے
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو صنم آشنا، تجھےکیا ملے گا نماز میں
خواءشیں تو بادشاءوں کو غلام بنا دیتی ہیں
مگر، صبر غلاموں کوبادشا بنا دیتا ہے
بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے اس گھپ اندھیرے میں کہاں سے آ رہا تھا میں نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے میں بولا غریبوں کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے ۔ میں نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں سڑک پر قدرے کم تھیں ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے ۔ اس لیے...

Comments
Post a Comment