Skip to main content

good bye G BAJWA SAB

  










    آزادی رائے،آوارگی رائے
 سوشل میڈیا پر آپ اپنی رائے کے استعمال میں آزاد ہیں،اسی میڈیا کی آزادی نے ماضی قریب میں حکومتیں بنانے اور توڑنے میں کردار ادا کیا ہے۔یہی سوشل میڈیا بہت سے رازوں سے پردہ اٹھانے کا کام کرتا ہے،زیرو سے ہیرو بنانا،ہیرو سے زیرو بنانا، 
 جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد عازم سفر ہوئے،بظاہر یہ ایک روٹین کی پریکٹس ہے لیکن جس طرح ٹویٹر پر ایش ٹیگ چل رہے ہیں یہ کوئی اچھی روایت نہیں ڈالی جا رہی۔ آپ کو کسی کی ذات سے اختلاف ہو سکتا ہے،لیکن اداروں کو چلتے رہنا چاہیے، جنرل باجوہ کے کیس میں تکلیف دہ امر یہ ہے کہ،نواز شریف،مریم نواز سمیت اپوزیشن کی جماعتوں کے نشانے پر رہنے کے بعد اب تحریک انصاف کی لیڈر شپ کی تنقید کا رخ بھی جنرل باجوہ کی ہی جانب ہے،یہ کسی طور کسی ادارے،کے سربراہ،کے شایان شان نہیں۔اگر اس سلسلہ کو موثر طریقے سے روکا نہ گیا تو کل کسی اور ادارے کو حدف بنتے دیر نہی لگے گی،ممکن ہے اداروں کی آہینی حدود اور ان حدود کے اندر رہ کر کام کرنے پر کوئی مثبت بحث مستقبل قریب میں نظر آئے لیکن اس کا امکان بہت ہی کم ہے کیونکہ تمام سیاسی قوتیں اپنے اختلاف کو دشمنی کی حد تک لے گئی ہیں،بیانیوں کی جنگ نے اپنی کامیابی کے لیے تمام حدود کو پار کر لیا ہے۔بات سیاست سے آگے نکل چکی ہے۔ ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کا احیاء ہوتا نظر آرہا ہے،ابھی تک پیپلز پارٹی نے اپنے تمام کارڈز عمدگی سے کھیلے ہیں۔یہ دیکھنا باقی ہے کہ بدلتے ہوئے منظر نامے میں یہ جماعت کس حد تک اپنے آپ کو پی ڈی ایم میں رہتے ہوئے اپنی شناخت کو بناتی ہے،

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...