Skip to main content

mam of a martyrdom











ارشد شریف کی شہادت 

ارشد شریف کی شہادت کو آج غالباَ 27 دن ہو گئے ہیں ہر روز اس بہیمانہ قتل سے جڑے حالات او ر واقعاتs
 زاویہ بدل رہے ہیں۔ ممکن ہے دیگر ہائی پروفائل کیسز کی طرح یہ کیس بھی تنازعات کا شکار ہو جائے،ممکن ہے اصل کرداروں کی کھوج میں کچھ ہاتھ نہ آئے۔یا اتنا وقت لگ جائے کہ اس کھوج کا نتیجہ نکل جئے لیکن فیملی میں خاص کر ماں،،،بادی النظر میں کوئی تو ہے جو اتنا طاقتور ہے جس کی اپروچ کینیا تک ہے کیونکہ کینیا کی جانب سے پاکستان میں ہوئے پوسٹمارٹم پر سوال اٹھانا اس جانب اشارہ کرتا ہے۔لیکن یہ سارے سوال اس کرب کے سامنے آج کی تاریخ تک تو بے بس ہیں ایک پرائے دیس میں شہید ہوئے ارشد شریف کو جس سے گزرنا پڑا۔اور اس کرب کی گونج ہمارے سوشل جسٹس سسٹم میں دیر تک سنائی دیتی رہے گی۔ایک لمحے کے لیے سوچیے جب ارشد شریف پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ہو گا،اس وقت کی فیلنگز،کبھی سپنے میں بھی نہ سوچا ہو گا،۔گھمان بھی نہ کیا ہو گا کہ افریقہ کے ایک ملک میں بھی اس کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔اس نے مڑ کر دیکھا ہو گا مدد کو پکارا ہو گا؟کینیا میں اس کی کوئی ماں نہیں تھی،اس کی اپنی ماں یہاں اپنہ سینہ سہلاتی ہو گی،انسان کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو ماں کو پکارتا ہے۔ماں تک اپنے بے قرار بیٹے کی صدا پہنچتی بھی ہے۔شاید ماں نے اپنے سینے سے اٹھتے اس طوفان کا کسی سے زکر بھی کیا ہو لیکن جو قیامت ٹوٹنی تھی ٹوٹ کے رہی۔۔۔۔ دستِ قاتل کام دکھا چکا تھا۔شہید کی ماں جس ہمدردی کی مستحق تھی جس انصاف کی متلاشی تھی،شاید اسے وہ ملا نہ ملے۔ایسے میں ڈر لگتا ہے قیامت کی ہولناکیوں میں ایک ماں جب انصاف مانگنے ایک پوری قوم اور ان کے کارکرتائوں کے خلاف کھڑی ہو گی وہ کیا گھڑی ہو گی؟ 



تو نے کیا ستم کر دیا اے اجالاءِ صبعءِ روشن 
   محبتوں کو ختم کردیا اے اجالا ءِ صبعءِ روشن 
                                ترے وجود سے روشن میری صبع میری شام 
                                باران، نور کو کم کر دیا اے اجالاءِ صبعءِ روشن 
دشمنوں کو ترے جنوں نے دی ہے مات 
امرہر سو،ہر دم کر دیا اے اجالاءِ صبعءِ روشن 
                                ہم وطنوں کو سکھا دیا شعورزندگی مر کے بھی
                               بلند جرات کا علم کر دیا اے اجالاءِ صبعٗ، روشن
تو نے جانے کی غلطی کر  کے اے سدھیر
سوگوار یہ عالم کر دیا اے اجالاءِ صبعٗ روشن











 Martyrdom of Arshed  Sharif



 It has probably been 27 days since the martyrdom of Arshad Sharif. Every day the circumstances and events related to this brutal murder are changing. It is possible that this case, like other high profile cases, will also become a victim of controversy, it is possible that nothing will be found in the search of the real characters.  it seems there is someone who is so powerful that he has approach to Kenya, as Kenya's questioning of the postmortem in Pakistan indicates this What Arshad Sharif, who was martyred in a distant country, had to go through. And the resonance of this agony will be heard in our social justice system for a long time. Think for a moment when Arshad Sharif was assassinated, the time feelings would never have dreamed that he would be targeted even in a country in Africa. Would he have looked back and called for help? There was no mother, his own mother would be comforting her breast here, when a person is in pain, he calls his mother. Even the mother can hear the voice of her restless son. Mention from Whatever happened, but the doomsday that was supposed to break, kept breaking. The killer's hand had been shown. The sympathy the martyr's mother deserved, the justice she was seeking, may not get it. I am afraid that a mother in the horrors of the doomsday, when a whole nation and their workers seek justice. What will be the clock that will stand against? More about this source text Source text required for additional translation information Send feedback Side panels

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...