Skip to main content

P T I long march

 




                    دھرنا سیاست اور پاکستان  

بانی
جماعت اسلامی کے امیر جناب قاضی حسین احمد صاحب (مرحوم) کو بلا شبہ پاکستان میں دھرنا سیاست کا بانی کہا جا سکتاہے  لیکن قاضی صآحب اور موجودہ دور کے دھرنوں میں کافی فرق ہے ۔قاضی صاحب کا دھرنا منظم ،پرامن اور صرٖف مطالبات کی حد تک ہوتا تھا ۔عمومی طور پر قاجی صاحب کا دھرنا کامیاب بھی ہوتا تھا ۔اس دھرنے کا مقصد عوامی ہی ہوتا تھا ،اس لیے  قاضی صاحب کے دھرنے غیر متنازعہ ہوتے تھے۔لیکن عوامی مقبولیت کے اعتبار سے ان کی مقبولیت بھی کم ہی
ہوتی تھی۔
طاہرالقادری اور دھرنا
 علامہ طاہر قادری صاحب بھی دھرنون کے رسیا تھے لیکن قادری صاحب کے حصے میں ماڈل ٹاون کے جانی نقصان کے باوجود کوئی خاص کامیابی نہیں آسکی موصوف اپنی تقاریر ،اور فنِ خطابت کی وجہ سے اپنا ایک حلقہ ضروررکھتے تھے لیکن اس کے باوجود کسی سیاسی کامیابی کا ذائقہ نہیں چھکھ سکے۔ 
جدید دھرنا سیاست ۔
۔تحریک انصاف کے بانی عمران کان کو جدید دھرنا سیاست کا بانی کہا جا سکتا ہے ۔عمران خان کو بہت سی نئی جہتوں کو متعارف کروانے کا کریڈٹ جاتا ہے۔چیدہ چیدہ کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔
(1)سوشل میڈیا کا استعمال۔
تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کے زریعے اپنا پیغام ہر گھر تک پہنچانے کا کام بخوبی لیا ہے ۔نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو سوشل میڈیا پر کسی سرگرمی کی تلاش رہتی ہے سو تحریک انصاف نے اس خلا کو پر کرنے کا کام کیا بدلتے قومی حالات کی آگہی اور لوگوں کو معلومات تک رسائی کو یقینی بنایا گیا ،اور گلیمرس ورلڈ کے تمام تقا ضوں کا خیال رکھا گیا ۔
(2)نوجوانوں کو ان ٹچ رکھنا۔
تحریک انصاف کی پالیسی آبادی کے ایک بڑے حصے یعنی نوجوانوں کے تہی مثالی رہی ہے ،نوجون نسل کو سوشل  میڈیا کے ذریعے اور بڑے جلسوں کے ذریعے خوب لبھایا گیا ۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جلسوں میں خواتین کی ایک قابل زکر تعداد آنے لگی 
آبادی کے ایک بڑے حصے جو کہ خواتین اور نوجوانوں پر مشتمل تھا کو جلسوں میں لا کر تحریک انصاف کی نہ صرف مقبولیت میں اضافہ ہوا بلکہ دھرنوں اور احتجاج میں بھی ان طبقہ جات کا کلیدی رول رہا ہے ۔
(3)بیانیہ بنانے کی جیت ۔
تحریک انصاف کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے مارچ یااحتجاج کے لیے ایک مظبوط بیانیہ بناتی رہی ہے اور اسی بیانہ کے اوپر اپنا پورا فوکس کرتے ہوئے احتجاج کی کال دیتی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے سوشل میڈیا کے استعمال سے اس بیانیہ کو گھر گھر تک پہنچایا جاتا ہے ۔اس کام کو سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کرتے ہیں سو باآسانی اک بڑے مجمع کو جمع کیا جا سکتا ہے ۔
(4)مین سٹریم میڈیا ۔
میڈیا کا رول کسی بھی معاشرے میں ٹرینڈ میکر کا ہوتا ہے سو مختلف ٹی وی چینلز کی ان بیانیوں کو لیکر ایک مناسب کوریج نے تحریک انصاف کے دھرنوں اور احتجاج کو جلا بخشی ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...