عمل سے
بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی
یہ
خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
(علامہ
اقبال )
کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو
کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو
خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو
حال پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو
وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے
مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے
میں ان رنگوں کودیکھ سکتی ہوں جی سکتی ہو ں
نیپون پینٹ کے ساتھ
اور بھوکے ننگے بچے خالی ویران ٹینٹ کے ساتھ
ووٹ مانگنے کو جلسہ عام ہوتا ہے
حکم سنانے کو ٹویٹر پہ کلام ہوتا ہے
دن بھر
جو تاک جاک کرتے ہیں
رات بھر ان کے ۔۔۔۔ ٹک ٹاک کرتے ہیں
سوشل سوشل کرتے سوشل میڈ یا ہو گئے
بچے تھے جو چاروکی پیڈ یا ہو گئے
سنا ہے چینل ان کا بھی چل نکلا ہے
گھر کے آٹے کا نہ جن سے حل نکلا ہے
اس ملک میؐں اتنے کریئٹر ؟
ہر گھرمیں ایک تھیٹر؟
فیس بک پہ جو ہنگامہءِ نیا پاکستان تھا
ریاست مدینہ کا جن کو گھمان تھا
وہ فتوے جو انسٹا گرام پہ تھے
وہ لیکچر جو حلال حرام پہ تھے
ویڈیوز اپلوڈ کرتے تھے وہ جو سیلاب میں بہتوں کی
حالت نہیں دکھتی ان کو ذندہ رہتوں کی ؟
ملکوں ملکوں چیٹنگ والوپڑوس کی خبر ہے
بتاؤ ناں ہر خبر پہ جو نظر ہے
سوشل میڈیا کا خمار اترے تو بتانا
ملک میں بد حالی خالی ہے خزانہ
اپنے کھیت کھلیانوں کو د یکھ
ملک کے بحرانوں کو دیکھ
پورا ملک رات بھر جاگتا ہے
عمل کے میدان سے بھاگتا ہے
سارے آن لائن ان لائن کوئی نہیں
پب جی کے دیوانے فطرت سے جائن کو ئی نہیں
سحر خیزی اور پڑھنے کے فائدے بھول بیٹھا
میرا جوان اسلاف کے قاعدے بھول بیٹھا
ایسے کب تک چلے گا ؟
Comments
Post a Comment