Skip to main content

society build by mediaمعاشرے کی تعمیر میں میڈیا کا رول



ہم بطور معاشرہ کس طرح سوچتے ہیں 





بظائر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے،پرو جیو یا پرو اے۔ آر۔وائی اور
 اینٹی جیو یا اینٹی اے۔آر وائی۔ماضی میں ایسی کوئی مثال شاید ہی ملے،جب دو بڑے میڈیا ہاوسز اس دیدہ دلیری سے پرو یا اینٹی حکومت یا حزب اختلاف کے طور پر سامنے آئے ہوں۔صحافی ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کے بعد دونوں میڈیا ہاوسز نے بیانیے کی جنگ میں ایک دوسرے سے سبقت لینے میں جو سولو فلائٹ پکڑی ہے اس کا انجام تو لازماَ تاریخ نے طے کرنا ہے۔لیکن ایک عام پاکستانی کی رائے اور سوچ کوجس بے رحمی سےمسل کر رکھ دیا گیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔آپ ایک گھنٹے کے لیے ان چینلز کی نشریحات باری باری لگا کر دیکھ لیں،آپ کو دو مختلف راج نظر آئیں گے ایک طرف دودھ شہد اور دوسری جانب بھوک افلاس جب کہ حالت یہ ہے کہ اپنے ریاست مدینہ والے ہوں یا پیرس والے،دونوں ایک ہی حکمت عملی کے پیروکار،دونوں نے اپنے اپنے ادوار میں مہنگائی اور لاقانونیت کے سوا کچھ نہیں کیا۔اب ببانگِ دہل۔اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور بیک چینل رابطوں پر فخر کا اظہار؟ایسے میں دونوں جماعتوں اور دونوں میڈیا ہاوسزنے مینگائی،لاقانونیت،اور سیلاب سے تباہ حال لوگوں اور ان کے بھیک مانگتے بچوں اور پھر ان پھول جیسے بچوں کے ساتھ بے رحم معاشرے کے سلوک کو پسِ پشت ڈالنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا،اب تو یہی میڈیا ہاوسز لندن اور دبئی کے قانون اور اخلاقیات کا درس دیتے نہیں تھکتے،جب کہ یہاں جعلی بیانیے بنانے،اور رائے عامہ کو تقسیم کرنے کا فریضہ انجام دینے والوں کو کاش کوئ بتائے۔ایک فین فالوئنگ کے حامل میڈیا ہاوس کی ذمہ داریاں معاشرے کی نوک پلک سنوارنے اور حکمرانوں کی اندھی تقلید سے بچانا ہوتا ہے نہ کہ صبع شام لوگوں کو نان ایشوز کی بتی کے پیچھے لگانے کی؟اسی طرح کسی بھی اپوزیشن کا کام محض اقتدار کا حصول ہی نہیں ہوتا۔حکومت سے کام لینے کی ذمہ داری بھی ایک طرح اپوزیشن کی ہی ہوتی ہے کہ وہ حکومت کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ عوام کے مفاد کو پیش نظر رکھے۔لیکن یہاں پر آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔خان صاحب کے لیے یو ٹرن لینا تو کھیل تماشا سہی لیکن ان اذہانکا جن کی وہ اپنی تقریروں کے زریعے فیڈنگ کر رہے ہوتے ہیں ان کی سوچ کا 

دہارہ کیسے بدلے گا؟کیونکہ آپ نے ڈیل یا ڈھیل کی نسبت عوام کو تھوڑی بتانا ہے۔ عوام کو کسی اور بتی کے پیچھے لگانا  ہے اور یہ کام میڈیا ہاوسز بخوبی سرانجام دیں گے۔   ایک ایسی سٹوری کہ جس کا پرچار ایک میڈیا ہاوس اس طرح کر رہا ہے کہ  ایک وزیراعظم ایک محترمہ کو قیمتی تحفہ بیچنے کو دے کر غیر ممالک بھیج رہے ہیں ایک ایسی سٹوری کا پرچار دوسری جانب سے ہو رہا ہے کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والا ایک ایسے شخص سے بیٹھ کر منصوبہ بندی کر رہا ہےجس کے ساتھ کوئی محلہ دار بھی نہ کرے،سو ایسے فضول کاموں کے پرچار سے اگر فرصت ملے تو ایک نظر ان مفلوک الحال عوام کی جانب بھی۔۔۔۔اور ملکی معیشت پر اور اس کی بہتری کا کوئی سامان ہو۔۔

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...