پاکستانی بیٹرز کی مجموئی کارکردگی کا جائزہکرکٹ کا عالمی میلہ انگلینڈ نے لوٹ لیا ہے۔ اس کے بعد کوئی بھی ٹیم جو اس میل حصہ تھی،اس کے فین اپنی اپنی ٹیم انتظامیہ سے اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ وہ پورا پوسٹمارٹم کرے گی۔اور أئندہ کے لیے ایسی ٹیم منتخب کرے گی جو میگا ایونٹ جیت کر نہ صرف شائقین کے زخموں پر مرہم رکھے گی بلکہ اس ہار سے سبق حاصل کر کے أئندہ کی بہتر منصوبہ بندی کرے گی۔۔جہاں تک ٹیم پاکستان کا تعلق ہے،ہمیشہ سے ہم عجیب و غریب فیصلوں اور ان کے دفاع کی عجیب عجیب دلیلوں کی تاریخ رکھتے ہیں۔پچھلے دو اڑھائی سال سے أصف علی،حیدر علی،اور خوشدل شاہ کو بطور فنشر ٹیم کے ساتھ کیری کیا اور کھلایا۔اسٹریلیا میں جا کر شایدہمیں اندازہ ہوا کہ ان پچز پر ان کھلاڑیوں کو کھلانا بنتا ہی نہیں کیونکہ ان کی تکنیک میعاری کرکٹ کھیلنے کیلیئے ہے ہی نہیں ان کو شاید دبئی شارجہ میں کھلایا جانا بنتا ہے لیکن وہاں بھی ان کی کارکردگی ایورج سے زیادہ نہیں،مجبورََأپکو نواز اور شاداب پر انحصار کرنا پڑا،یہ بات معجزہ سے کسی طور کم نہ ہے کہ ہم نہ صرف فائنل کھیلے بلکہ انگلینڈ کو بمشکل جیت ملی،پاکستانی باؤلنگ کی سراہنا نہ کرنا زیادتی ہو گی،ایک بات کی أپکو بھی شاید سمجھ نہ لگی ہو حسنین کا بگ بیش کا تجربہ تھا ممکن ہے اس کی باؤلنگ فارم اچھی نہ ہو لیکن أپ اسے زمبابوے یا نیدرلینڈ کے خلاف چانس دے سکتے تھے ممکن ہے اس کی سپیڈ کچھ فرق ڈالتی اور اسٹریلیا میں کھیل کا تجربہ بھی۔۔خیر باؤلنگ ہمارا مسلہ تھا بھی نہیں،اب أتےہیں بیٹرزکی جانب اور کرتے ہیں پوسٹمارٹم پاکستان نے عالمی مقابلے میں کھیلے ہیں سات میچز اور ہمارے بیٹرز نے تقریباََ700بالز کا سامنا کیا۔وأپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ تقریباََ نصف بالز ہمارے بیٹرز نے ڈاٹ کھیلی ہیں۔ہمارے بیٹرز کی جانب سے لگائے گئے چوکے اور چھکوں کی تعداد بھی کم بلکہ بہت کم ہے جس کی تفصیل ہم أپکو دینے جا رہے ہیں نمبرشمار نام پلئیر بالز کھیلیں چوکے چھکے ٹوٹل سکور سٹرائیک مجموئی 1 محمد رضوان 148 15 03 175 118 2 بابر اعظم 133 13 0 124 93 3 محمد حارث 67 06 06 97 144 4 شان مسعود 146 11 01 175 119 5 افتخار احمد 93 06 06 108 116 6 شاداب خان 54 07 05 98 181 7 محمد نواز 48 05 02 59 122 8 محمد وسیم 22 02 0 16 70 9 آصف علی 03 0 0 02 66 10 حیدر علی 05 0 0 02 40 11 فخر زمان 16 03 0 20 125
بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے اس گھپ اندھیرے میں کہاں سے آ رہا تھا میں نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے میں بولا غریبوں کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے ۔ میں نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں سڑک پر قدرے کم تھیں ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے ۔ اس لیے...
Comments
Post a Comment