Skip to main content

راجہ جی پنڈی جلساں میچ تکساں


راولپنڈی ٹیسٹ 
بہت سے حکیموں،نیم حکیموں،طبیبوں اور حبیبوں سے رابطے اور ٹن ٹن کے باوجود ہماری حالت وہ ہو گئی کہ،مرض بڑھتا گیا جوں جوں دعا کی،بلکہ ہماری حالت تو مرزا غالب کے مصداق ہو گئی۔ ع پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی اصل میں ہوا یوں کہ ہمیں برے برے خوابوں نے ستایا تھا ایسا ویسا نہیں ستایا بلکہ باقاعدہ ناک میں دم کیا تھا،سو ہم نے مشہور زمانہ لوگوں اور نیم حکیموں سے رابطے کا اصولی فیصلہ کیا،یہ میں پہلے بھی تذکرہ کر چکا ہوں کہ ہم من حیث القوم نیم حکیموں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔اب آپ سے کیا پردہ کل کی ہی بات ہے ہم نے آمدہ بلدیاتی الیکشن میں ووٹ دینے کا مشورہ بھی ایک ََنیم حکیم سے ہی کیا ہے،اس نے کہا وِن وِن کھیلو،سو ہم کھیل رہے ہیں،وِن وِن،کا مطلب تو آپ جانتے ہو گے۔ ع سیکھا ہے نقطہ وروں سے خاص لگو اور عام رہو سو مرض بڑھا سمجھو مشکلات بڑھیں اب تو ہمیں برے خیالات کا عارضہ لاحق ہو چکا ہے ہمارے خیالوں میں یہ بات راسخ ہو چلی ہے کہ ہم تیزی سے پستی کی طرف گامزن ہیں،آپس کی بات ہے آجکل اپنے خان صاحب بھی تواتر سے یہ بات کہتے پائے جاتے ہیں کہ جو،قومیں اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں مٹ جاتی ہیں،اپنے خان صاحب کی کیا بات ہے،یاد آیا اچھا،اچھا وہی ساہیکل والے المعروف ریاست مدینہ والے۔اب خان صاحب نے کہا توٹھیک ہی کہا ہے،ہم کون ہوتے ہیں بات کرنے والے خان صاحب نے کہا اور ٹھیک کہا تاوقتیکہ۔۔یو ٹرن نہ آجائے المعروف اچھے لیڈر کی پہچان ہممم مممم بات کہاں سے چلی اور کہاں پہنچ گئی،ارے بابا یہ پاکستان ہے کچھ بھی نا ممکن نہیں اب خان صاحب پر ہوئے حملہ کو ہی لے لیں حکومت،پولیس،وزیر مشیر سب اپنے لیکن۔ایف آئی آر۔پرائی،اصل میں کرسچن ٹرنر کی بات کرنا چاہتے تھے جو نہ صرف میچ دیکھنے گئے بلکہ رکشہ پر گئے اوراردو میں جذبہ اور جنون سنا گئے اور تو اور پوٹھوہاری بھی بول کر دکھا دی۔ برسوں پہلے بی بی سی کا ایک پروگرام سن رہا تھا شفیع جامعی صاحب نے ایک سری لنکن کا انٹرویو کیا وہ بھی اردو میں انٹرویو کے بعد یہ تلخ حقیقت بھی بتا دی آپ پاکستان کے کسی سرکاری آفیسر سے اردو میں بات کریں جواب انگلش میں آئے گا۔ پاکستان میں لوگ دوسروں پر رعب بٹھانے اور ماڈرن دکھنے کے لیے انگریزی بولتے ہیں۔جب ملک کی سرکاری زبان اردو تو پھر۔۔۔آپ چاہینیز کو ہی دیکھ لیں اپنی زبان میں بول کر بھی ترقی کر رہے ہیں اور خوب کر رہے ہیں۔ماڈرن ازم کا تعلق زبان سے کیا؛ برسوں سے یاد آیا جاوید چودھری صاحب کے کالم میں ایک بار پڑھا تھا،ہم لنڈا بازار کی سوچ اپنائے ہوئے ہیں،ہم یورپ سے پرانے کوٹ اور بوٹ تو خرید لیتے ہی لیکن ان کی اخلاقیات اور مزاج کو امپورٹ کرنے کے لیے تیار نہیں، سو کرسچن ٹرنر کھلکھلاتے مسکراتے میچ دیکھنے پہنچے ایسا لگ رہا تھا وہ پاکستان میں نہیں کسی اور ہی ریاست میں پہنچے ہوں۔ ارے بابا یہاں تو پروٹوکول چلتا ہے رکشہ مکشہ نہیں ہمارے بڑے تو بڑے بڑوں کے ملازم بھی بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں آپ کسی بھی سرکاری ملازم کی خاص کر نیم سرکاری ادارے اور بیورو کریسی کی ٹھاٹ باٹ دیکھ کر دنگ رہ جاؤ آپ کے ملکوں میں تو ایسا نہیں ہوتا ہو گا ویسے بھی اب ہم ایک آزادملک ہیں، ویسے بھی یہ مزاج یہ اخلاقیات آپ نے ہم سے امپورٹ کی ہے اور بدلے میں کیا دیا،وہی جاوید چودھری والی بات،جب ہم لینا ہی نہیں چاہتے تو؟ تو اس کا مطلب ہے آپ کے جانے سے آپ کی ٹیم کو فرق پڑتا ہے اور بہت پڑتا ہے،آپ کی بیمار ٹیم نے ہمارے تندرستوں کا جو حال کیا ہے نہ،اگر آپ کی بیمار ی ایسی ہے تو صحت کا عالم کیا ہو گا،ہمارے بڑوں کے جانے سے تو فرق نہیں پڑتا بلکہ گنگا الٹی بہتی ہے،اب ورلڈ کپ کو ہی لے لیں،جیسے تیسے ہم فائنل میں پہنچ گئے تھے کہ اپنے چئرمین صاحب نے ٹیم کا حوصلہ اچھا اچھا درست کہا۔وہی وہی بری سلیکشن،ڈاٹ بالز کرائم،تکنیک،ڈاٹ۔۔۔۔اب کیا کریں ہماری ٹیم کا مزاج ہی ایسا حوصلہ بڑھاؤ تو ٹوٹ جاتا ہے پھر کیا کہ ہم (چالیس فیصد)ڈاٹ بالز کھیل کر آگئے۔شکست کو المعروف لڑ کر ہارے کے بیانیے میں دفن کر دیا انڈیا سے ہارے آخری گیند زمبابوے سے ہارے آخری گیند لڑکر ہارے جیت کس کی ہوئی یہ ہر لڑائی کا اختتام ہماری شکست پر کیوں؟المعروف قدرت کی مرضی والے ہیں نہ کوئی بات نہیں یہ پہلی باری نہیں ہوا اپنے زرداری صاحب بھی اپنے دور اقتدار میں میچ دیکھنے گئے تھے۔پھر کیا تھا نہ۔۔ہم ہار گئے،اس وقت پاکستان انڈیا کی ٹینشن عروج پر تھی، اپنے مفاہمت کے بادشاہ نے برف پگھلا دی تھی۔ پنڈی ٹیسٹ کا آغازپاکستان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ایک سو بارہ سال پرانا ریکارڈ ہم نے تڑوا دیا ہے جب سے مصباح نے اس ملک کی ٹیسٹ ٹیم کو نمبر ون بنوایا سب کچھ بدل گیا۔اب ٹی ٹونٹی کو ہم ٹیسٹ سمجھ کر کھیلتے ہیں اور کئی مسٹر ٹُک ٹُک پیدا کیے ہیں،پاکستان میں ٹُک ٹک دو ہی ہیں یا تو رکشہ جس پر کرسچن ٹرنر نے سواری کی اور یا پاکستانی بیٹر۔ جن کی انگلش بیٹرز نے دھلائی کی وہ توباؤلرز ہیں،یا د آیا ورلڈ کپ میں تو پاکستانی باؤلرز کی دھوم تھی۔اب گنگا پاکستان میں آکر پھر الٹی ہو گئی اصل میں پاکستان نے تین باؤلرز کا ڈیبیو کروا دیا یوں کسی بھی ٹیسٹ کے پہلے دن چار بیٹرز کی سنچریوں کا ریکارڈبنوادیا۔تو کپتان صاحب اپنے من کی خبر لیں کیا معلوم کسی حقدار کا حق آپ کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا ہو اور گنگا الٹی بہنے لگی ہو کیا معلوم اقتدار میں اقدار کی جنگ چلتی رہے تو ایسا برا نہیں کھیل کے ہارو اور کبھی کبھار کھیل کر جیت بھی لو تو کیا ہی بات

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...