Skip to main content

16 دسمبر تاریخ کے آئینے میں

 16 دسمبر ایک درد ناک کہانی ۔



دسمبر سرد شامیں دردناک دن .
    دسمبر عمومی طور پر شاعروں اور ادیبوں کا مہینہ کہلاتا ہے ۔کیونکہ درد کے ماروں کی ہمیشہ سے خوائش ہوتی ہے کہ درد اور تنہائی کو ملاقات کا موقع کم سے کم میسر آئے کیونکہ تنہائی درد کی اذیت کو دوگنا کر دیتی ہے اور جب راتیں لمبی ہوتی ہیں تو بیماروں اور درد کے ماروں کی حالت پتلی ہو جاتی ہے۔
ع دن تو خیر گزر جاتا ہے ۔رات نہ کاٹی جائے۔


پاکستان میں دسمبر شاعروں اور ادیبوں کے لیے بھاری ہے یا نہیں دانشوروں اور اس ملک سے پیار کرنے والوں پہ بہت بھاری گزرا ہے جب بھی دسمبرآتا ہے تلخ یادوں اور درد بھری داستانیں تازہ ہو جاتی ہیں اور نئے انگریزی سال کی آمد ایک درد کے ماحول میں ہوتی ہے۔
16دسمبر 1971

۔16 دسمر 1971 کو پاکستان کو مکار دشمن کی مکاریوں نے وہ کاری ضرب لگائی کہ پاکستان کومشرقی پاکستان سے ہاتھ دھونے پڑے یوں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے لگ بھگ آدھے پاکستان یعنی بنگلہ دیش کا وجود ہو گیا ۔
16 دسمبر کے ہی دن پاکستان کی مسلع افواج کی ایک بڑ ی تعداد سرنڈر کرتے ہوئے بھارتی قید میں چلی گئی۔یوں سانحہ مشرقی پاکستان ممکن ہوا ۔آج 51 سال بعد بھی اس زخم کا درد باقی ہے ،
ملک بنتے ہیں ٹوٹتے ہیں لیکن کبھی بھی کسی ملک کے ٹوٹنے کی ایک وجہ نہیں ہوتی اس کی سیاسی وجوہات بھی ہوتی ہیں اور معاشی اور معاشرتی بھی ،اس میں ناانصافیاں بھی ہوتی ہیں، اور ظلم بھی ہوتے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود کوئی ملک یا خطہ اس وقت تک فتع نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے اندر سے فضا کو ہموار نہ  کیا جائے ۔
سانحہ مشرقی پاکستان میں بھی اسی طرح کے عوامل کارفرما تھے ایک تو سیاسی افراتفری تھی اور دوسرا احتجاج کو دبانے کے لیے طاقت کے بے جا استعمال نے اس تحریک کو ایک آزادی کی تحریک بنا دیا جس کا مقصد شاید اقتدار تھا ،اس سانحے کے بعد بہت سے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنے لیکن پاکستان میں کمیشن  کے اوپر بھی کمیشن بنتے ہیں اور یہ سلسلہ اتنا دراز ہو جاتا ہے کہ اس وقت رپورٹ آتی ہے جب اس کی اہمیت تقریباََ ختم ہو جاتی ہے ۔لیکن اب کیا پچھتائے ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت والی صورت ہو جاتی ہے اب لوگوں کو پھانسی پر لٹکانے سے تو ملک واپس نہیں ملتے درد نہیں کم ہوتے اور قوموں کے وقار نہیں بدلتے ۔۔
16 دسمبر 2014 ۔
 
  دسمبر اور 16 دسمبر نے ایک بار پھر پلٹ کر وار کیا ۔اب کی بار پاکستان کو نیا اور انوکھا زخم دیا گیا 16 دسمبر جب پاکستانی قوم سانحہ مشرقی پاکستان کو یاد کر کے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو سدھارنے کا عہد کر رہی تھی اور مکار دشمن کی چالوں کو سمجھنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی ۔معصوم بچوں پر منصوبہ بندی سے حملہ کر دیا گیا وہ پھول جن کو ابھی کھلنا تھا ،وہ ہونٹ جن کو مسکانا تھا، وہ خوشبوئیں جن کو بکھرنا تھا، وہ معمار وطن جن کو ابھی نکھرنا تھا، وہ خواب جن کی ابھی روپ ریکھا سنورنی تھی، سب کچھ 7خود کش حملہ آورز کے ایک ناپاک ارادے کی نزر ہو گیا ،
ایک بار پھر سانحہ کربلا کی یاد تازہ ہو گئی، ایک طرف بربریت ،ایک طرف ایثار اور قربانی ،ایک طرف ظلم، ایک طرف معصومیت، 8 گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد جب سکول کے طلبہ اور ٹیچرز کے لواحقین کی اور عام عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کی موجودگی میں دہشت گردوں کی ہلاکت کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ ،،تمام دہشتگرد ہلاک کر دیے گئے ہیں تو پورے پاکستان اور خاص کر موقع پر موجود لوگوں کے لیے یہ منظر بہت بھیانک تھا یہ منظر جس آنکھ نے ،دیکھا اس آنکھ کے آنسو کم پڑ گئے تھے ،پھول ،کتابیں، پستے ،خون، آرمی پبلک سکول کی دیواریں گولیوں سے چھلنی تھیں اور دل بھی ،،
اس حملہ میں 134 بچوں سمیت 150 سے زائد شہادتیں ہوئیں اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تمام 7 حملہ آور مارے گئے ۔تحریک طالبان پاکستان نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی اور اس حملہ کی منصوبہ بندی اور معاونت کرنے والے 7 لوگوں کو بعد میں سزائے موت دی گئی ۔
اس سانحہ  کے بعد پاکستان کی تمام قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور ایک موثر حکمت عملی کے نتیجے میں طالبان کی کمر توڑ دی گئی ۔۔

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...