Skip to main content

ہمارے لیے نمونہ کون ؟

ہمارے لیے نمونہ کون ؟

جب ہم ایک مثالی معاشرتی زندگی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پاس کوئی تو ہو گا جس کی وجہ سے یا جس کی طرح ہم بننا چائیں گے ۔یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم یہ کہیں کہ ہم اچھا آدمی بننا چاہیں لیکن ہمارے پاس کوئی مثال نہ ہو، آسان الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ڈاکٹر بننا ہے اور ہم اس کی ٹریننگ یا ڈگری کے بغیر ہسپتال کھول لیں یا کسی بھی شعبہ کی مہارت کے لیے پہلے ایک گول سیٹ کرنا پڑتا ہے جس کے ہوتے ہوئے ہم رفتہ رفتہ اس منزل کی جانب سفر شروع کرتے ہیں ٹارگٹ ہمارے سامنے ہوتا ہے اور ہم قدم بقدم بڑھتے ہیں یوں ایک دن ہم اس منزل کو پا لیتے ہیں جس کی ہمیں تلاش ہوتی ہے

جب ہم ایک مثالی معاشرتی زندگی کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے جس ہستی کا نام ہمارے سامنے آتا ہے ان کا نام ہے حضرت محمدؐ ۔جی ہاں ہمارے نبیؐ نے اپنی زندگی کا ہر ہر پہلو انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے پیش کیا ہے ،زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس میں کہ ہمارے نبی نے ایک ہدایت اور عملی نمونہ نہ چھوڑا ہو ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیَ سے جب آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ،قرآن ،یعنی جو بات قرآن میں تحریر کی شکل میں ہے وہ آپ ﷺ کی زندگی میں عمل کی صورت میں موجود ہے ۔

آپ کو بطور تاجر دیکھیں تو جب آپﷺ حضرت خدیجہ کا مال تجارت کے لیے لے گئے تو آپ کے غلام نےجو جو صفات آپ ﷺ کی گنوائیں ان سے متاثر ہو کر آپ رضی اللہ تعالیَ نے آپ ﷺکو نکاح کا پیغام بجھوایا ۔

جن لوگوں نے آپ ﷺ پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا طاقت کے ہوتے ہوئے ان کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا ،،

جو عورت آپ پر روزانہ کچرہ پھنکتی تھی جب وہ بیمارہو جاتی ہے تو آپ ﷺ اس کی بیمار پرسی کو جاتے ہیں ،،

عرب معاشرے میں عورت ایک محکوم و مظلوم کی زندگی گزارنے پر مجبور تھی لیکن آپ ﷺ نے اس کو وہ مرتبہ دیا جس کا اس دور میں تصور بھی محال تھا ۔جن لوگوں کی زندگی غلاموں کی تھی انہیں باعزت مقام پر لا کھڑا کیا ۔پسے ہوئے مظلوم لوگوں کے لیے زکوَۃ کا نظام لایا تاکہ دولت چند ہاتھوں میں محدود ہو کر نہ رہ جائے محنت کشوں کے لیے معاشرے میں ایک باوقار مقام پیدا فرمایا ۔یہ سب کرنے کے لیے اسے اپنے آپ سے شروع کیا ایک ایسا معاشرہ جس میں دوسرے کے دکھ اور درد میں شریک ہونے کا جذبہ تھا اور دوسرے کے ساتھ غم خواری کی جنون۔ لیکن یہ سب کرنے کے لیے لوگوں کی باقاعدہ اخلاقی تربیت کی گئی ۔ورنہ یہ ممکن نہ تھا ۔ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہوتا کہ کسی معاشرے میں برائیاں مکمل طور پر ختم ہو جائیں سو ان کے تدارک کے لیے جزا اور سزا کا ایک میکنزم تشکیل دیا گیا ،،

آج جب ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں تو بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کو محض اخلاقی تربیت سے بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کو محض ہلکی پھلکی سزاؤں سے، بہت سے مسائل ایسےجن کو محض شعور و آگہی سے بہت سے مسائل ایسےجن کو انصاف کی جلد فراہمی سے ختم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے کوشش کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے ایک سچی لگن کی ضرورت ہوتی ہے ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ معاشرہ امن کا گہوارہ بنے قانون کی حکمرانی ہو لیکن اس کی شروعات کسی اور سے ہو ۔جب تک اپنے آپ سے شروعات نہیں ہونگی کبھی بھی تبدیلی اور مثبت تبدیلی کی امید پیدا نہیں کی جا سکتی ۔

Who is a role model for us?

When we talk about an ideal social life, we will have someone who we want to be like or because of whom we want to become. No, in simple words we can say that we want to become a doctor and open a hospital without any training or degree or expertise in any field. We start the journey towards the destination, the target is in front of us and we move step by step until one day we find the destination we are looking for.
When we talk about an ideal social life, the first person whose name comes before us is the name of Prophet Muhammad. There is no area of life in which our Prophet ﷺ did not leave a guide and practical example.
When Hazrat Aisha Siddiqa (RA) was asked about the morals of the Prophet (PBUH), she said, "The Qur'an, that is, what is in the form of writing in the Qur'an, is present in the form of actions in the life of the Prophet (PBUH).
Look at you as a merchant, when you (PBUH) took Khadija's property for trade, your slave was impressed by the qualities that you (PBUH) missed, and he (RA) sent a message of marriage to you (PBUH).He announced a general amnesty for the people who had a short life on him.
The woman who used to spit garbage on you every day, when she gets sick, you visit her sick room.
In the Arab society, women were forced to live the life of a subjugated and oppressed person, but the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) gave her a position that was unimaginable in that era. He brought the system of Zakat for the oppressed people so that the wealth would not be limited in a few hands. And there was a passion for sharing in pain and a passion for sharing grief with others. But to do all this, people were given formal moral training. Otherwise, it would not have been possible. It is never possible to completely eliminate evils in a society, so a mechanism of reward and punishment was created to remedy them. given ,,
Today, when we see in our society, there are many problems that can be solved by just moral training, many problems that can be solved by just light punishments, many problems that can be solved by just awareness and many problems that can be solved by justice. It can be eliminated by quick delivery but it requires effort it requires a true commitment we all want a society to be a cradle of peace rule of law but it has to start with someone else. There can never be hope for change and positive change unless it starts with oneself.

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...