Skip to main content

Ideal social life How to improve social life ?



 حادثات اور مواقع ۔

کچھ عرصہ قبل میں بی بی سی کی ایک ڈاکو منٹری دیکھ رہا تھا ،ڈاکو منٹری میں دکھایا گیا تھا کہ جب امریکن افواج کی جانب سے بمباری کی جاتی ہے تو کیسے افغان شہری جمع ہو جاتے ہیں اور اس بمباری کے نتیجے میں جو بموں کے ٹکڑے ادھر اُدھر بِکھر جاتے ہیں ان کو چن کر سکریپ میں بیچ کر اپنے لیے روزی کا سامان کرتے ہیں بعد میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ رات کی تاریکی میں افغان شہری مختلف پہاڑیوں پر لالٹینیں جلاتے ہیں تا کہ امریکن سشمن سمجھ کر بمباری کریں اور وہ بموں کے ٹکڑے اکھٹے کریں اور اس کو سکریپ میں بیچ کر روزی روٹی کا بندوبست کر سکیں ،یہ کتنی عجیب بات ہے کہ

جہاں پر ایک طرف تبائی کا سامان ہوتا ہے وہیں پر کسی کی روزی روٹی کا سامان؟

اس کو کہتے ہیں حادثات سے مواقع تلاشنا ،مثال کے طور پر جب کرونا آیا جو لوگ ماسک بنانے کے کاروبار سے منسلک تھے انہوں نے اس کو اپنے لیے موقع جانا اور وہی ماسک جو دس روپے میں دستیاب تھا وہ سو روپے تک بِکا ۔لیکن یہ منفی رجعان زیادہ دیر تک نہ چل سکا کیونکہ اس کے متبادل یا متوازی صنعت وجود میں آگئی یعنی گھروں میں عورتوں نے ماسک بنانے شروع کر دیے اور آہستہ آہستہ ماسک کی قیمت قابو میں آگئی ۔لیکن بہت سے منافع خوروں نے ایک بیماری کو اپنے حق میں استعمال کیا ۔پاکستاں میں آن لائن خریداری کا رواج کم ہی تھا لیکن کرونا کی وجہ سے اس طرز کی خرید و فروخت کرنے والوں نے بھی مارکیٹ میں اپنا مقام تلاش لیا ۔یہ محض چند مثالیں ہیں جب بھی کوئی کرائسس آتا ہے ہے کچھ لوگ اس کو اپنے لیے موقع بنا لیتے ہیں اور کمائی کرتے ہیں ۔لیکن چند ایک ایسی بھی سرگرمیاں یا پیشے ہوتے ہیں جن کی

روزی روٹی ہی کرائسس کی وجہ سے چلتی ہے ۔میرے ایک دوست ڈاکٹر ہیں ایک دن جب میں ان کے پاس بیٹھا تھا باتوں باتوں میں میں نے ان سے کاروبار کے متعلق پوچھ لیا تو انہوں نے بتایا کہ آج کل مندی ہے کیونکہ موسم آئیڈیل ہے اس لیے لوگ زیادہ بیمار نہیں ہوتے ،سو ان کے لیے لوگوں کا بیمار ہونا کاروبار میں ترقی کا باعث ہے لیکن میرے لیے یہ مضعکہ خیز تھا ۔اسی طرح ہسپتالوں میں ایمبولینس سروس کا کام ہی مریضوں اور مرنے والوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے ،لوگ بیمار نہیں ہونگے یا انکی اموات نہیں ہونگی تو ان کی روزی روٹی کیسے چلے گی ؟ایسے میں پی ٹی آئی دور  کے ایک وزیر کا بیان بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اگر مہنگائی ہے تو ایک جانب عوام کو تکلیف ہے تو جو کمائی کر رہے ہیں وہ بھی تو پاکستانی ہیں اور ہمارے بھایہ ہی تو ہیں کسی کو تو فائدہ ہو رہا ہے ،لیکن کچھ ایسے کرائسس یا حادثات ہوتے ہیں جن کا سوچ یا سن کر انسانی روح لرز جاتی ہے لیکن کچھ لوگ اس کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور یہی تصویر کا وہ بدنما رخ ہے جس پر سوچنا بنتا ہے ۔جنرل مشرف کے دور خکومت میں میڈیا اور تعلیم کے شعبے کو پرائیویٹائز کیا گیا تھا ،یہ بنیادی طور پر ایک کرائسس کا ہی نتیجہ تھا کیونکہ پاکستان میں خبر کے ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے اور تعلیم کے شعبہ میں حکومتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ان دونوں شعبوں کو مدد کی ضرورت تھی یعنی آسان الفاظ میں بہت سا سرمایہ درکار تھا ان کی حالت سدھارنے کے لیے بظائر یہ ایک اچھا اقدام تھا لیکن اس موقع کو بھی بہت سے لوگوں نے اپنے حق میں استعمال کیا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیمی ادارے محض اسناد ددینے کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور میڈیا ہاوسز ریٹنگ کے چکر میں ہر حدود کو پھلانگتتےنظر آئے یوں ہمارے نوجوان ڈگریاں لیے سڑکوں پر رُلنے لگے اور ہمارے میڈیا ہاوسز اپنی خبروں کے مصدقہ ہونے یا نہ ہونے سے بیگانے۔

یہ کوئی ایک شعبہ نہیں کہ جس میں آپ کو ایسے لوگ نظر آئیں ہر شعبہ عملی طور پر ایک ایسی ہی مثال ہے ،صحت کے شعبہ پاکستان کا سب سے ترقی کرتا شعبہ ہے لیکن اس شعبہ میں بھی حالت ایسی ہے کہ پرائیویٹ کالجز کی بھرمار ہے لیکن پروفیشنلز کی کمی یوں پورا معاشرہ عطائیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے یعنی عطائیوں نے اس گیپ اس حادثے کو اپنے حق میں استعمال کر لیا عطائیوں کی ایک اور قسم جو کہ ضعیف الاعتقاد لوگوں کو گھمرائی کی جانب دھکیلے جا رئی ہے ،وہ ہے جعلی عاملوں اور فقیروں کی ۔آئے روز ایسی خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ کسی عطائی کے ہاتھوں کسی کی جان چلی گئی لیکن پھر بھی اس بدعت کا توڑ چونکہ علاج معالجے کی سہولیات کی وجہ سے ہی ممکن تھا لیکن صحت کا شعبہ بھی اپنی آئیڈیل پوزیشن میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کاروبار کو روکنا ممکن نہ ہو سکا 

میں ایک ایسے حجام کو جانتا ہوں جس کی دکان پر حجامت کروانے والوں سے زیادہ قانونی مشورے لینے والوں کا رش ہوتا ہے کیوں ؟ اس سوال کا مستند جواب تو شاید اس حجام کو بھی نہ ہو ۔ظاہر ہے اس کام کا ماہر تو ایک وکیل ہو گا لیکن چونکہ وکلا کی بھاری فیسیں ادا کرنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے لوگ ایک عطائی کو مسیحا مان لیتے ہیں یوں ان کے کیسز کا فیصلہ تو ان کے حق میں کیا ہونا ہے لیکن پھر بھی لوگ اس کے پاس آتے ہیں یہ ایک نان پروفیشنل اپروچ ہے ۔

قارئین اس موضوع کو جاری رکھیں گے لیکن اس کے لیے ہمیں آپ کی رائے درکار ہو گی ،اگر اس موضوع کو یہی پر سمیٹا جائے تو یہ نا مکمل رہ جائے گا اس لیے آپ کی رائے بہت اہم ہے ،شکریہ

---------------------------

Accidents and opportunities.


Some time ago I was watching a BBC documentary about how Afghan civilians gather when



bombarded by US forces and the bomb fragments that fall as a result of the bombardment. They scatter here and there, pick them up and sell them in scraps to make a living for themselves. Later there were reports that in the darkness of the night, Afghan citizens light lanterns on different hills so that the Americans can bomb them and bomb them. Collect the pieces and sell it in scraps to make a living, how strange is it that where there is a piece of trash on one side, there is someone's livelihood?


This is called looking for opportunities from accidents, for example, when Corona came, people who were involved in the business of making masks, they saw it as an opportunity for themselves and the same mask that was available for ten rupees was sold for up to one hundred rupees. The negative reaction did not last long because an alternative or parallel industry came into being, i.e. women started making masks at home and gradually the price of masks came under control. But many profiteers used a disease in their favor. Used. Online shopping was less common in Pakistan, but due to Corona, this type of sellers have also found their place in the market. These are just a few examples. Whenever there is a crisis, some people But there are some activities or professions whose livelihood is driven by the crisis. I have a friend who is a doctor. One day when I was sitting with him talking. I asked him about the business and he told me that nowadays there is a slump because the weather is ideal so people don't get sick much. And for them, people getting sick is a reason for business development, but for me it was ridiculous. Similarly, the job of ambulance service in hospitals is to transport the patients and the dead from one place to another, people will not be sick or their If there are no deaths, how will their
livelihood work? The statement of a PTI-era minister is also interesting that if there is inflation, on the one hand, the people are suffering, then those who are earning are also Pakistanis. And there are our brothers, someone is benefiting, but there are some crises or accidents, the thought or hearing of which shakes the human spirit, but some people try to use it in their favor. This is the ugly side of the picture that makes us think. During the regime of General Musharraf, the media and the education sector were privatized, which was basically the result of a crisis because of the limited sources of news in Pakistan. and due to the lack of interest of the governments in the education sector, these two sectors needed help, that is, in simple words, a lot of capital was required for them. It seemed like a good move to improve the situation, but many people also used this opportunity in their favor. The result was that the educational institutions joined the race of awarding certificates and the media houses violated every limitation in the cycle of rating. In no time at all, our youth started crying on the streets with their degrees and our media houses were bewildered by the authenticity or not of their news.


It is not a single sector in which you see such people, practically every sector is a similar example, the health sector is the most developing sector in Pakistan, but the situation in this sector is also such that there are a lot of private colleges. But due to the lack of professionals, the entire society has fallen into the hands of Attaies, that is, the Attaies have used this gap and this accident in their favor. And of the poor. Every day there are news that someone lost his life at the hands of a gift, but still this innovation was broken because the treatment was possible only because of the medical facilities, but the health sector was also not in its ideal position. Due to this, it was not possible to stop this business


I know a barber whose shop has more legal advice than barbers. Why? The authentic answer to this question may not even be given to this barber. Obviously, an expert in this work would be a lawyer, but because of the inability to pay the heavy fees of lawyers, people consider a gift as a messiah. What is the decision of the cases in their favor, but still people come to him, this is a non-professional approach.

   

Readers will continue this topic but for that we need your feedback, if this topic is limited to this it will be incomplete so your feedback is very important, thanks

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...