Skip to main content

likes ,follow ,comment share.









 سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داریاں ۔

8اکتوبر 2005 کادن پاکستان بطور خاص کشمیر کی تاریخ میں ایک تباہ کن دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔اس وقت پاکستان میں جنرل (ریٹائرڈ) مشرف کی حکومت تھی ۔ہولناک زلزلہ سے دھرتی الٹ پلٹ ہو گئی اور لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہو گئیں !


اس وقت کشمیر میں کمیونیکیشن کا نظام سرے سے موجود ہی نہ تھا ،اگر کوئی تھوڑا بہت نظام تھا بھی تو وہ سرکاری دفاتر تک محدود تھا ،سو بہت سی قیمتی جانیں محض اس لیے ضائع ہو گئیں کہ ان تک بروقت مدد نہ پہنچ سکی ،بہت سے لوگ ملبے تلے گھنٹوں دبے رہے اور مدد مدد پکارتے رہے لیکن ان کی آواز کسی تک نہ پہنچ سکی .ممکن ہے اس وقت کمیونیکیشن کا کوئی نظام ہوتا بھی لیکن اس قیامت خیز زلزلے میں بے کار ہو جاتا یا زمیں بوس ہو جاتا ،لیکن جنرل مشرف کے ذہن میں اس بات کا اثر بہت گہرا ہوا کہ اگر کمیونیکیشن کا  نظام ہوتا تو شاید بہت سی انسانی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں یا ایسے دور دراز علاقے جہاں امداد بروقت نہ پہنچ سکی کیوں کہ ان کا علم بہت دیر سے ہوا ایسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔


جنرل مشرف نے دنیا بھر کی کمپنیوں کو اس شعبہ میؐں سرمایہ کاری کی دعوت دی یوں پاکستان کے کونے کونے میں ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں نے اپنے ٹاورز لگا کر تقریباۤۤ پورے پاکستان کو موبائل کی سہولت سے مستفید کر دیا ،اگر اآپ اولین دنوں کی بات کریں تو اس وقت جو موبائل 90 ٪ آبادی کے پاس تھے وہ ان فیچرز کے ساتھ تھے 1  گھڑی 2   کیلکولیٹر 3  ٹارچ  4  شارٹ میسجز سروس 5  کال سو ان سہولیات کو عوام نے غنیمت جانتے ہوئے ان کا بھر پور استعمال کیا ،دیکھتےہی دیکھتے ہر ہاتھ میں موبائل آگیا اور یوں دل بہلانے کا ایک بہانہ مل گیا ۔

رفتہ رفتہ عام موبائل کی جگہ سمارٹ فونز نے لے لی سمارٹ فونز میں گھڑی ٹارچ  ایس ایم ایس کالنگ کے ساتھ بہت سے فیچرز کا اٖضافہ ہو گیا انٹرنیٹ براوزنگ سوشل میڈیا ای میل لائیو ویڈیو سروسز چیٹ اور اس طرح کی بہت سی ان گنت سہولیات جن کو نوجوان نسل نے دونوں ہاتھوں سے قبول کیا مرد و عورت کی تفریق کے بغیر انٹرنیٹ یکساں مواقع فراہم کرتے ہوئے ہر کسی کی دلچسپی کا سامان مہیا کر دیا ہے ،جس   کے درست یا غلط استعمال کی ذمہ داری کلی طور پر یوزر کی اپنی ہے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے آپ پوری دنیا میں اپنے دوست بنا سکتے ہیں ،آپ پوری دنیا میں اپنی پراڈکٹ کی تشہیر کر سکتے ہیں اور تو اور آپ دوسروں کی پراڈکٹس کی تشہیر کر کے بھی پیسہ کما سکتے ہیں ،لیکن ہمارے ہاں سوشل میڈیا کو مادر پدر آزادی کے ٹول کے طور پر استعمال کا رجعان دیکھا جا رہا ہے جس سے بچنا چائیے اسی طرح بطور ایک اسلامی معاشرہ ہمیں ایک لائن ڈرا کرنی چاہیے جس سے آگے جانا غلط تصور ہو سپیشلی ہماری بچیوں کو اپنے گرد ایک لائن ڈرا کرنا ہو گی کوئی کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو ایک حد سے آگے آنے سے اسے روکنا ہو گا پیسے صرف ویڈیوز سے نہیں کمائے جاتے اور بھی ایسے پلیٹ فارم ہیں جن پر نہ صرٖ آپ پیسہ کما سکتے ہو بلکہ اپنی شناخت کو بھی برقرار رکھ سکتے ہو ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ زیادہ لائک زیادہ کمنٹ زیادہ شئیر کے چکر میں ہم اپنی اقدار سے اتنے دور نہ چلے جائیں کہ واپسی کا کئی رستہ ہی نہ بچے ؟


Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...