اے قائدِاعظم تیرا احسان ہے (25 دسمبر 1876 )
یہ ایک پروقار تقریب تھی ،کئی ایک مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا جن میں تقریباَ۔ تمام شعبہ ہائے زنگی کے لوگ شامل تھے یہ ایک نجی سکول کی جلسہ تقسیم اسناد کی تقریب تھی ،پاکستان میں قائدِاعظم محمدعلی جناح کے یومِ پیدائش پر چھٹی ہوتی ہے اور اس دن مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔شائد اسی لیے سکول انتظامیہ نے اس دن کا انتخاب کیا تھا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس تقریب کا حصہ بنیں ،مجھے بھی اس تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا ۔
یہ واقعی میں ایک شاندار تقریب تھی ،مقررین اور طلبہ نے قائدِ اعظم کی زندگی پر سیر حاصل گفتگو کی اور حاضرین اور سامعین کے دل میں اپنے محبوب قائد کی محبت کو ایک نئی جہت ملی ۔بچوں نے بہت اچھے سے ملی و قومی نغمے گائے اور اور شرکا سے داد و تحسین وصول کی ۔ایک بچی نے تو کمال ہی کر دیا اس ترنم سے اور ترانے کے اندر محو ہو کر گایا کہ کیا ہی کہنے ،ترانے کے بول تھے ،اے قائدِاعظم تیرا احسان ہے ،ترانہ گانے کا لفظ میں جان بوجھ کر استعمال کر رہا ہوں کیونکہ اب تو ترانہ کیا نعت بھی ہم لوگ گاتے ہیں پڑھتے نہیں یہ جد ت پسندی کا شاخسانہ یا کچھ اور ۔۔۔خیر لکھنے والے نے لکھا بھی اور گانے والی بچی نے گایا بھی خوب ،میں اس ترانے کے سحر میں ایسا کھویا کہ نجانے کب میری آنکھوں نے برسنا شروع کیا اور ۔۔۔۔میں نے کہیں پڑھا تھا ہم لوگ جب کسی جنازے میں جاتے ہیں تو مرنے والا ہمارا جاننے والا نہ بھی ہو ہماری آنکھوں سے آنسو نکل جاتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ ہم مرنے والے کے اقربا کے غم کے ساتھ ہی اپنا غم ملا لیتے ہیں اور ہماری آنکھیں برسنا شروع ہو جاتی ہیں ہم دوسروں کے غم میں اپنا غم منا رہے ہوتے ہیں ۔۔ تقریب کافی دیر تک جاری رہی لیکن میرے ذہن میں بس یہی چل رہا تھا ،اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے ،میرے کانوں میں میرے نام کی آواز گونجی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا مجھے سٹیج پر بلایا جا رہا تھا میں نے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ سٹیج کی طرف قدم بڑھا دیے ۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں مجھے بس ایک لفظ یاد تھا اور وہ تھا ،اے قئدِ اعظم تیرا احسان ہے ،میں نےایک سرسری سی نگاہ مجمع پر دوڑائی دور دور تک لوگ ہی لوگ نظر آ رہے تھے میں نے سامعین اور حاضرین سے پوچھا ابھی کچھ ہی پل پہلےجو آپ سن رہے تھے ،اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے ،تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا ہے قئدِ اعظم کا احسان ،میری اس بات سے ہر طرف سناٹا چھا گیا میں نے ایک نگاہ مجمع پر دوڑائی اور اپنا سوال دہرایا اب کی بار میری آواز بہت بلند اور تحکم آمیز ہو گئی تھی ،جب کہیں سے کوئی جواب نہ آیا تو میں نے اپنے سوال کا خودسے ہی جواب دیا اب سامعین کا جوش دیدنی تھا ۔ ،پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج اٹھی ۔میں نے پھر سوالیہ انداز میں پوچھا کیا اپ لوگ احسان کا مطلب جانتے ہو لیکن اب کی بار میں نے کسی کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا ،میں نے کہا جب کوئی ماں اپنے بچوں کو صبع سکول بھیجے کہ وہ علم سیکھ کر آئے گا اور شام کو اس کا بچہ خالی ہاتھ چلا جائے تو کیا یہ قائدِ اعظم کے احسان کا شکریہ ہے ؟میں دیکھ رہا تھا لوگ میری بات کا مطلب سمجھ رہے تھے اور اپنی اپنی نشتوں پر پہلو بدل رہے تھے ،میں نے کلام کو جاری رکھا اس چمن کے بنانے میں قائدِ اعظم اور ان کے رفقا نے جو قربانیاں دی ہیں ان کا احاطہ ممکن نہیں لیکن کیا اپ نہیں دیکھتے اس ملک کے پھولوں کی جو رنگت ہے یہ دنیا کے کسی ملک کے پھولوں کی نہیں کیوں ؟ کیونکہ اس چمن کے گلوں میں شہیدوں کے خوں کی رنگت بھی ہے اور مہک بھی ،اور اس چمن کے گلوں کی سپیدی ان کلیوں کی ہے جو خود تو فدا ہو گئیں لیکن ہمیں ایک آزاد مملکت کا تحفہ دے گئیں ۔ہم جب اپنے قائد کا شکریہ ادا کرتے ہیں تو ان لاکھوں شہیدوں کا بھی شکریہ ادا کر رہے ہوتے ہیں جن کی لازوال قربانیاں اس جدوجہد میں شامل تھیں لیکن کیا ہم اس عظیم نعمت کا اور اس احسان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں یہ ہے وہ سوال جس کا جواب تاریخ ہم سے پوچھے گی کوئی طالب علم جو لگن اور صدقِ دل سے اپنے اساتزہ کا احترام نہیں کرتا اور اس کے من میں ملک کی خدمت کا جزبہ نہیں تو وہ اس احسان کا انکاری ہے اور کوئی گورنمنٹ سرونٹ اپنی پہشہ ورانہ ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ قائدَاعظم کے احسان کا شکریہ ادا کر رہا ہے کوئی سیاستدان جب وہ حلف لے کر کے اور عوام سے ان کی ترقی کا وعدہ کر کے اقتدار کو حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے وعدے کا پاس نہ کرتے ہوئے عوام کی فلاح کا کوئی کام نہیں کرتا تو کیسے وہ اس مملکت خدادا کا احسان مند ہے اسی طرح وکلا سول سوسائٹی ججز اور بیورو کریسی اگر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو اچھے سے نہیں نبھاتے تو کس منہ سے قائدِاعظم کا شکریہ ادا کرتے ہیں اسی طرح ممبروں سے نفرت کے وعظ اسی طرح رشوت ستانی جھوٹ دغا فریب ملاوٹ یہ سب جرائم ہیں جن کے مرتکب افراد کبھی یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے کہ ہم قائدِ اعظم کا احسان جانتے ہیں ،،سامعین ذی وقار قائدِ محترم کی صرف ایک بات جو انہوں نے اپنے کسی ملازم سے کہی تھی کہ مجھے کبھی یقین نہیں تھا کہ میں اپنی زندگی میں پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھوں گا ۔کیوں کہ قائدِ اعظم بیماری کے باوجود اس قوم کی آزادی کی تحریک کو دوام بخشنے کے لیے اس راز کو چھپا کر جئیے تو اس ایک احسان کا بدلہ چکانا ہمارے بس کی بات نہیں اس عظیم مملکت کا احسان ہم سے کیسے ادا ہو لیکن ہم قائد کے فرمودات کو اپنے لیے مشعل راہ بنا کر ہم ایمان اتحاد تنظیم کو سلوگن نہیں اس پر سچے دل سے عمل پیرا ہو کر ملک کو ترقی کے راستے پر ڈال سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔شکریہ
----------------------------------------------------
Quaid-e-Azam, it is your favor
It was a grand ceremony, many guests were invited including approx. People from all walks of life were involved. It was a certificate distribution ceremony of a private school. In Pakistan, there is a holiday on the birthday of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah and various events are organized on this day. The day was chosen so that more people could be a part of this event, I also received an invitation to participate in this event.
It was really a wonderful event, the speakers and students talked about the life of Quaid-e-Azam and the love of their beloved Quaid got a new dimension in the hearts of the audience and the audience. And received applause and praise from the participants. One girl did a great job with this hymn and sang, absorbed in the anthem, what to say, the lyrics of the anthem were, O Quaid-i-e-Azam, your favor is known in the words of the anthem. I am using it heavily because now we people are singing the anthem, not reading it. It is a sign of modernism or something else. I was so lost that when did my eyes start to rain and.. I had read somewhere that when we go to a funeral, even if the deceased is not our acquaintance, why do tears come out of our eyes? Because we mix our grief with the grief of the relatives of the deceased and our eyes start to rain, we are celebrating our grief in the grief of others. The ceremony continued for a long time but this was the only thing that was going on in my mind, O Quaid-e-Azam, your favor is there, the sound of my name echoed in my ears, I raised my head and saw that I was being called on the stage. Stepped towards the stage together.
As I have already mentioned, I only remembered one word and that was, O Qeed-i-e-Azam, your favor is there. A few moments ago, what you were listening to, O Quaid-i-e-Azam, is your favor, so I ask you, what is the favor of the Quaid-e-Azam? Sometimes my voice became very loud and commanding, when there was no answer from anywhere, I answered my question by myself. Now the excitement of the audience was visible. The air echoed with the loud slogans of Pakistan Zindabad. I asked again in a questioning manner, do you guys know the meaning of kindness, but this time I didn't even wait for anyone's answer, I said when a mother called me. If he sends his children to school, he will learn knowledge and in the evening, if his child leaves empty-handed, is this thanks to the favor of the Quaid-i-e-Azam? Aspects were changing. Why not flowers? Because the flowers of this chaman have the color and smell of the blood of the martyrs, and the purity of the flowers of this chaman belongs to those who sacrificed themselves but gave us the gift of a free country. If we pay, we are also thanking the millions of martyrs whose eternal sacrifices were involved in this struggle, but are we thanking this great blessing and this kindness? It will be asked if a student who does not respect his teacher with dedication and sincerity and does not have the desire to serve the country in his heart, then he is denying this favor and a government servant does not fulfill his professional responsibility. He may be thanking the Prime Minister for his favor. If he does not work, then how is he in the favor of God in this country, similarly, lawyers, civil society, judges and bureaucracy, if they do not fulfill their responsibilities well, how can they do it? We do not thank the Quaid-e-Azam, in the same way hate speech against the members, bribery, lying, cheating, deception, adulteration are all crimes, the perpetrators of which never have the right to say that we know the favor of the Quaid-e-Azam. The only thing that Quaid said to one of his employees was that I never believed that I would see Pakistan being formed in my lifetime. If we hide this secret, then it is not up to us to repay this one favor, how can we repay the favor of this great country, but we should use the leader's orders as a beacon for us. But you can put the country on the path of development by following it with a sincere heart. Thank you
.jpg)
Comments
Post a Comment