Skip to main content

Economic challenges and common people. Ideal social life

معاشی چیلنجز اور عام آدمی ۔۔۔

ہم اپنی روز مرہ زندگی کو دو کیٹیگریز میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔۔

1۔لگژری یا عیاشی 

2۔ضرورت یا مجبوری

آگے چل کر ہم ان کیٹیگریز کو بھی مزید تقسیم کر کے اچھے سے ایک پروگرام ترتیب دیں گے جس پر عمل کر کے ہم کچھ نہ کچھ اس کرائسس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے جس کا سامنا آنے والے چند دنوں یا ہفتوں میں کرنا پڑ سکتا ہے ،ایک بات جو ہم سب کے ایمان کا حصہ ہے (انشااللہ)کہ اگر اللہ چاہے تو ناممکن سے ممکن نہ ہونے سے ہونا کرائسس اپر چونیٹی بن سکتا ہے کوئی مشکل نہیں ،ہم دعائوں سے اچھے اعمال سے صدقہ خیرات سے اور اللہ کو راضی کر کے بہت سی آنے والی بلائوں کو ٹال سکتے ہیں ،سر دست ہم جو تیاری کرنے جا رہے ہیں وہ ان حالات کے لیے کر رہے ہیں جن کا آنا اب کوئی انہونی نہیں بلکہ ایسا ہو چکا ہے اس کے اثرات کی بات ہم کر رہے ہیں یہ تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ مصیبت میں گھبرانا کمال درجے کی مصیبت ہے۔

پاکستان کے معاشی حالات جس ڈگر پہ چل نکلے ہیں اس سے واپسی کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی ،دلچسپ امر ہے کہ سوائے جماعت اسلامی کے سبھی سیاسی جماعتیں اقتدار میں بھی ہیں اور سبھی جماعتیں اپوزیشن میں بھی لیکن ملک کی اس تبائی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دینے میں ایڑے چوٹی کا زور لگا رہی ہیں اس اشتراک اقتدار نے عوام کی ایسی چیخیں نکلوائی ہیں کہ الاماں ۔

اب ان حالات میں جب سب سیاسی جماعتیں اقتدار کا مزہ لے رہی ہیں سوچنا یہ ہے کہ اس قیامت خیز مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی کوئی ایسی سبیل نکلے کہ ایک عام اآدمی کی گزر بسر ہو سکے ،کہنے کو تو یہاں حکومت ہے لیکن اگر عملی طور پر دیکھا جائے  تو آپ اس نتیجے پر با آسانی پہنچ جائیں گے کہ بہت سے کام جو حکومتوں کے کرنے کے تھے وہ ان سے جان چھڑا چکی ہے مثال کے طور پر تعلیم کا شعبہ ہی لے لیں مکمل طور پر اس کو پرا ئیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا گیا ہے ،پرائیویٹ تعلیمی نظام نے عوام کوفیسوں کے نام پہ مکمل طور پر جکڑ لیا ہو ہے ایک تو تعلیمی میدان میں اب رٹے کا رواج زور پکڑ رہا ہے دوسرا ایک ایسی نسل تیار کی جا رہی ہے جس کی تمام تعلیم ہی غیر ملکی سلیبس پر مشتمل ہے جس کو شاید اپنے جغرافیہ کا ہی معلوم نہ ہے یہ ایک ایسا جال پھیلایا گیا ہے کہ عوام کی جیبوں پر بھی بھاری ہے اور قومیت کے تصور پر بھی ۔

آپ ایک اور شعبہ کوجو کہ انتہائی اہمیت کا عامل ہے یعنی صحت کا شعبہ اس کو بھی پرائیویٹ سیکٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اس کا بغور مشائدہ کریں تو پتہ چلے گا کہ آہستہ آہستہ حکومت اس شعبہ کو پرائیویٹائز کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے یوں علاج معالجہ عام عوام کے لیے ایک اور چیلنج ایک اور فنانشل پرابلم کے طور پر سامنے آ چکا ہے ۔

مسائل کا حل یا ترقی تو اب ایک خواب ہی لگتا ہے عملی طور پر دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے بہت سی ایسی چیزیں جن کو چھوڑ کر بھی ہم زندہ رہ سکتے ہیں ایسی فضول رسومات جن کا نہ تو مذہب سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان کا تعلق قانوں یا ہمارے آبا و اجداد سے ہے بلکہ ان کا تعلق، لوگ کیا کہیں گے ،سے ہے  اگر ہماری زندگی سے، لوگ کیا کہیں گے،نکل جائے تو بھی ہم بہت سے اضافی اخراجات سے بچ سکتے ہیں 

                     (   جاری)

 Economic challenges and common people.


We can divide our daily life into two categories.


1. Luxury


2. Necessity or compulsion


Going forward, we will further divide these categories and organize a good program by which we will somehow be able to face the crisis that we have to face in the coming days or weeks. Maybe, one thing that is a part of our faith (InshaAllah) is that if Allah wills, the impossible is possible. It can become a crisis from not being. There is no difficulty. We can avert many future calamities by convincing You all know that panicking in trouble is a great trouble.


The economic situation of Pakistan shows no way to return from the path it has taken. It is interesting that all the political parties except Jamaat-e-Islami are in power and all the parties are also in the opposition. In declaring each other, the heels are putting the utmost emphasis on this shared power.


Now in these circumstances, when all the political parties are enjoying the power, it is thought that there should be some way to fight this rising inflation so that a common man can survive. But if you look at it, you will easily come to the conclusion that many of the tasks that were supposed to be done by the governments have gotten rid of them, for example, take the education sector and completely hand it over to the private sector. has been done, the private education system has completely enslaved the people in the name of fees. On the one hand, the practice of rota is gaining strength in the education field, and on the other hand, a generation is being prepared whose education is all foreign. Consisting of syllabus which may not even know about its geography, it has spread such a net that it is heavy on the pockets of the people and also on the concept of nationality.

If you carefully observe another sector which is a very important factor i.e. the health sector, it has also been left at the mercy of the private sector, then you will know that gradually the government has succeeded in privatizing this sector. As it is, treatment has come up as another challenge and another financial problem for the common people

The solution or development of the problems seems to be a dream now. In practice, it is becoming impossible to get two meals a day. There are many things that we can live without. There is no relation and they are not related to the law or our ancestors but they are related to what people will say. can


                      (continued)

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...