Skip to main content

ٰIdeal Social life ,How to improve Social life.


آئیڈیل سوشل لائف ۔۔۔۔۔۔بہترین طرز زندگی،،

 اس نے تیرھویں دکان پر مول بھاو کر کے دیکھ لیا لیکن ایسا لگتا تھاتمام دکانداروں نے آپس میں طے کر رکھا تھا کہ اسے خالی ہاتھ گھر لوٹانا ہے ،بار بار وہ اپنی جیب کو دیکھتا تھا اور بچوں کے چہرے اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتے ،وہ سوچ سکتا تھا کہ اس کے بچے نئی یونیفام نہ ملنے کی وجہ سے کتنے دل گرفتہ ہوں گے سکول میں استاد جب اس کے بچوں کو دیگر بچوں کے سامنے نئی یونیفام نہ پہننے کی وجہ پوچھیں گے تو ان کے پاس کیا جواب ہو گا ؟.کتنی ندامت اٹھانی پڑے گی انہیں ،وہ سوچ رہا تھا کہ ایک ایسا طبقہ جس کا کام بچوں کی تربیت کا ہے وہ کیسے بچوں کو دوسرے بچوں کے سامنے شرمندہ کر سکتا ہے ؟لیکن پھر اسے اپنی لاڈلی بچی کا سر جھکایا وجود نظر آیا ،کل ہی تو اس نے کہا تھا پاپا مجھے پڑھنے کا شوق نہ ہوتا تو کبھی سکول نہ جاتی ۔پتہ ہے پاپا ٹیچر نے مجھے اپنی دوستوں کے سامنے کتنا بے عزت کیا ہے ؟میں تو بس شرم سے ڈوب مر گئی ہوں ۔ابو میں کیا کرتی ؟ وہ سوچ رہا تھا پرائیویٹ سکولوں میں تو امیروں کے بچے پڑھتے ہیں ناں ہم جیسے غریبوں کے لیے تو سرکاری سکول ہیں ۔ہمارے پاس اتنے وسائل کہاں کہ ہم پرائیویٹ سکولوں کی روزانہ کی فرمائشیں اور آسائشیں اپنے بچوں کو مہیا کر سکیں ۔

پاکستان میں عملاََطبقاتی نظام رائج ہے ایک غریب کے لیے جس کے لیے تعلیم،علاج معالجہ قانون رہن سہن ،لباس ،خوراک سب الگ ہے لیکن دوسرے طبقہ کے لیے الگ جو غریب اپنی حدود سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں قدم قدم پر زلت کا سامنا کرنا پرتا ہے ،،

لیکن اس کی بیگم کو بچوں کو اچھے سکولوں میں پڑھانے کا خبط سوار تھا بیگم کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس کی باقی فیملی کے بچے تو اچھے سکولوں میں پڑھیں لیکن اس کے بچے سرکاری سکولوں میں دھکے کھاتے پھریں ،ویسے بھی سرکاری سکولوں میں پڑھائی تھوڑی ہوتی ہے ؟ 

ایک طرف مہنگائی جس میں گھر کے روزمرہ کے اخراجات چلانا مشکل ہوتا جارہا تھا۔دوسری طرف سکولز کی بھاری بھرکم فیسیں ۔ہر ماہ بڑھتے یوٹیلیٹی بلز ان مراحل سے گزرنے کے لیے ہر روز ایک غریب آدمی کو مرنا پڑتا ہے نجانے وہ کیا تسلی ہوتی ہے جو اس کو ہر روز زندگی کا کوئی نیا سپنا دکھا دیتی ہے کوئی نئی امید بندھا دیتی ہے ،بچوں کی فرمائشوں اور اپنی غربت کے درمیان توازن برقرار رکھنا اب ہر کسی کے بس میں نہیں۔۔۔

ہر فیملی میں کوئی نہ کوئی ایسا آدمی ضرور ہوتا ہے جو کہ سفید پوش ہوتا ہے دیگر لوگوں کے پاس اس کی اس طریقے سے مدد کرنے کا کہ اس کی مدد بھی ہو جائے اور اس کو کچھ خاص محسوس بھی نہ ہو اس کا ایک موقع رہتا ہے لیکن جو اپنی زندگی میں مگن ہوتے ہیں ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے پاس ان کے قریب ان کا ہی کوئی اپنا ہر روز جیتا ہے اور ہر روز مرتا ہے کیسے گزربسر کرتا ہے ؟

ہم ایک آئیڈیل معاشرے کے قیام کی جب بات کرتے ہیں تو پھر اس کی بنیادی اکائی یہی ہے کہ ہم اپنے آس پاس کم ازکم اپنے عزیزوں میں ضرور نظر ماریں اور اس کی عزت نفس مجروع کیے بغیر اس کی مدد کر دیں اور کئی دفعہ لوگ بہت تھوڑی سی مدد اور توجہ سے ٹریک پر آ جاتے ہیں ہمیں نہ صرف اپنے بچوں کی فکر ہونی چاہیے بلکہ سب بچوں کی سب اقرباکی ۔۔ان دیواروں ان فصیلوں کو ہمیں توڑنا ہو گا جو ہم نے اپنی اپنی ذات کے آگے کھڑٰی کر دی ہیں ۔

Ideal Social Life: The best way of life.


  He looked at the thirteenth shop with a frown, but it seemed that all the shopkeepers had decided among themselves that he would return home empty-handed. Again and again he looked into his pocket and the faces of the children came before his eyes. How upset his children would be because of not getting a new uniform. When the teacher at school asks his children why they don't wear a new uniform in front of other children, what answer will they have? How regretful. They will have to, he was thinking how a class whose job is to educate children can embarrass children in front of other children? But then he saw the head bowed existence of his lovely daughter. said, "Dad, if I didn't like to read, I would never have gone to school. Do you know how much the teacher has disrespected me in front of my friends? I just drowned with shame. What would I have done?" He was thinking that rich people's children study in private schools, but for poor people like us, there are government schools.


A caste system is prevalent in Pakistan. For those for whom education, treatment, law, living, clothing, food are all different, but for the other class, the poor who try to get out of their limits, they have to face oppression step by step.


But her Begum was adamant about teaching her children in good schools. Begum didn't like that the rest of her family's children studied in good schools, but her children were pushed around in government schools. Is it a little?


On the one hand, inflation in which it was becoming difficult to run the daily expenses of the house. On the other hand, the heavy school fees. Every month increasing utility bills, a poor man has to die every day to go through these stages. What is the consolation? Which shows him a new dream of life every day, gives him a new hope, maintaining the balance between the children's requests and his poverty is no longer in everyone's power.


In every family there is a man who wears white, there is always an opportunity for other people to help him in a way that he can be helped and he doesn't feel special. But those who are engrossed in their own lives do not realize that they have someone close to them who lives every day and dies every day.


When we talk about the establishment of an ideal society, then its basic unit is that we must look at least among our loved ones around us and help them without lowering their self-respect, and many times people are very With a little help and attention, we get on the track. We should not only worry about our children, but all the relatives of all children.

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...