! عام آدمی کا کرب !
ایک ایسا ملک جس کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی تھی اس میں اس قسم کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ کسی کو بھی اس بات کی فکر نہیں کہ اس کا پڑوسی کس حال میں ہے کیوں کہ اس کے لیے اب شائد ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ کسی دوسرے کا حال پوچھ سکے یا ایک ایسی بے بسی کا عالم یہاں وہاں راج کر رہا ہے کہ قیامت صغرٰی کا منظر پیش ہو رہا ہے۔ دیگر خوبیوں کے ساتھ اب احساس بھی اس قوم سے جا چکا ہے اب ایسا وقت آن پہنچا ہے کہ لوگ جینے سے زیادہ موت کو پکارنے لگے ہیں لیکن اس بات کا اب بھی کوئی امکان نہیں کہ لوگ اس قیامت خیز مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر آئیں گے یا کسی بھی حکومتی پالیسی کے خلاف کوئی موثر احتجاج کریں گے بلکہ اب بھی میری جماعت میرا لیڈر کا راگ الاپتے اور مہنگائی کی چکی میں پستے عوام انہی لوگوں سے کسی معجزے کی توقع کر رہے ہیں جنہوں نے انہیں حالات کے اس بے رحم دھارے میں تنہا چھوڑ دیا ہے اور خود دور بیٹھ کر نظارہ کر رہے ہیں اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ زیادہ تر اشرافیہ ابھی بھی مہنگائی سے ہی بے خبر ہو ملک کی مقبول قیادت اب بھی اس کوشش میں ہے کہ اس مظلوم عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنا کر اقتدار کی منزل حاصل کی جائے.پاکستان میں جاری جیل بھرو تحریک سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لیڈران کی ترجیعات معض فوٹو سیشن سے زیادہ نہیں حیران کن طور پر عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس تعریک میں دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ لوگ کچھ دیر کے لیے اپنا غم غلط کرنے کا سوچ رہے ہوں یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ یہ سوچ رہے ہوں کہ ایسا کرنے سے وہ لیڈران کی نظر میں اپنا مقام بنا لیں گے یا جیل جانے کی صورت میں انہیں کچھ وقت کے لیے دنیا کے بکھیڑوں سے آ زادی میسر ہو گی وجہ جو بھی ہو حکومت اس موقع کو اپنے لیے مہنگائی سے توجہ ہٹانے کے ایک موقع کے طور پر ضرور استعمال کرے گی اور اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اگر جیل بھرو تعریک کے بجائے مہنگائی کے خلاف بھوک ہڑتال یا اس جیسی کسی اور تعریک کو شروع کیا جاتا تو اس کی مقبولیت نہ صرف زیادہ ہوتی بلکہ اس کی کامیابی کے چانسز زیادہ ہوتے لیکن کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجیع عوام ہیں ہی نہیں اس لیے اپوزیشن کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ کسی ایسی تعریک کا حصہ بنے جس کا نتیجہ اس حکومت کا اختتام ہو بلکہ وہ یہی چاقہے گی کہ اس حکومت کو اتنا کمزور کیا جائے کہ وہ اقتدار کا نام بھی سننا گوارا نہ کرے یہ اور بات ہے کہ اس کے لیے عوام کی حالت کیا سے کیا ہو جائے گی خیر عوام تو ہوتے ہی اسی لیے ہیں کہ وہ ہاتھیوں کی لڑائی میں بے موت مارے جائیں اور شہید جمہوریت کہلائے جائیں
Comments
Post a Comment