Skip to main content

Inflation in pakistan

 مہنگائی مافیاز اور پاکستان!
ایک ایسے وقت میں جب ملک مہنگائی کی دلدل میں سر تک دھنس چکا ہے۔ایسے میں حکومت  ا ور انتظامیہ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کیوں کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عوام کو مدد اور تحفظ کی پہلے سے کئی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ایک طرف مہنگائی جو روز بڑھ رہی ہو کسی چیز کے دام کم ہونے کا نام نہ لے رہے ہوں اور امکان ہو کہ چیزوں کی قیمتیں اگلے ایک ہفتہ یا مہینہ میں اور بھی بڑھ جائیں گی تو مافیاز کا اور زخیرہ اندوزوں کی چاندی ہو جاتی ہے کیوں کہ ایک ایسی مارکیٹ جہاں توازن نہ رہے اور اگر کسی چیز میں رہے تو مہنگائی کے بڑھتے ہوئے رجحان میں تو ایک ایسا ڈیلر جس کے پاس پیسے ہوں وہ اس موقع کو کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہیں دے گا کہ وہ ایک ہفتہ یا مہینہ تک اپنے سرمائے یا مال کو روکے رکھے اور اس کے نتیجے میں اس کے پاس ایک کثیر منافع آئے اور اس بات کا کوئی امکانی خطرہ بھی نہ ہو کہ اس سے اس بارے میں کوئی باز پرس ہو گی تو اس چانس کو مس کرنا وہ ایک حماقت ہی سمجھے گا؟ ناپید ہوتے ڈالرز کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہیں کیوں  کہ لوگ ڈالر کو خریدنے میں اس لیے برائی نہیں سمجھتے کیونکہ یہ ایک ایسی انوسٹمنٹ بن گئی ہے جس میں گھاٹے کا سودا نہیں۔یوں ملک میں ایسے حالات پیداکر دیے گئے ہیں کہ حکومت یا سٹیٹ بینک کے پاس تو شائدڈالز نہ ہوں لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ڈالرز ہوں گے جنہیں وہ اپنی سہولت یا سوچ کے مطابق فروخت کریں گے اسی طرح  ایک بے یقینی صورت حال نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی فیملی کی زندگیاں بچانے کی خاطربیرون ملک  چلے جائیں۔ایک ایسی حکومت جس کے پاس سوائے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کو کوئی بھی قابل عمل پلان نہیں اس کے لیے حالات کو سنبھالنا اس لیے بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ ملک میں شدید سیاسی تناؤ بھی ہے جس سے نمٹنا ایک الگ چیلنج ہے بظاہر حکومت سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہی ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں تحریک انصاف کی جانب سے آئے روز نیا سیاسی کھیل حکومت کیلیے درد سر بنا ہو ہے لیکن اس بات میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ تحریک انصاف کے پاس بھی اس صورتحال سے ملک کو نکالنے کا کوئی حل نہیں۔عوام کے لیے ہر گزرتا دن مصائب اور مشکلات کی نوید بن کر آ رہا ہے۔ملک میں الیکشن ہو جائیں صوبائی اسمبلیوں کے الگ ہو اور قومی اسمبلیوں کے الگ،دونوں الیکشن ایک بار ہوں یہ اب صرف اور صرف  سیاسی جماعتوں کا مسلۂ بن کر رہ گیا ہے۔عوام کا مسئلہ اب دو وقت کی روٹی سے زیادہ نہیں حالات کسی طور بھی اچھے نہیں ایک ایسا نظام حکومت جو پچھلے پچھتر سالوں سے عوام میں مقبول تھا اب عوام میں اپنی مقبولیت کھوتا جا رہا ہے   

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...