Skip to main content

شاعرانہ مزاج!

 شاعرانہ مزاج!

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے پورے کا پورا ملک شاعری کے خبط میں مبتلا ہے کوئی ایسا شعبہ زندگی نہیں جس میں ہم شاعرانہ مزاج نہ رکھتے ہوں سیاستدان ہوں وکلاء ہوں بیوروکریٹس ہوں یا علماء کرام پورا ملک ایک قسم کے ہیجان میں اور کشمکش میں مبتلا ہے کہ ہمیں دوسرے سے بڑا ایکٹر بننا ہے بڑا شاعر بننا ہے اور دکھنا ہے چاہے اس کے لیے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑ جائے عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ ہر کوئی سنگر ہوتا ہے خاص کر باتھ روم سنگر تو ہر کوئی ہوتا ہے یعنی باتھ روم میں جب انسان اکیلا ہوتا ہے تو لازمی اپنے سروں کا جادو جگاتا ہے لیکن یہاں معاملہ کچھ آگے نکل چکا ہے آپ کو شاید یہ بات معیوب لگے لیکن کڑوا سچ یہی ہے کہ آپ بس سٹاپ پر جائیں آپ کسی بھی پبلک پلیس پر جائیں آپ پبلک واش رومز میں جائیں آپ مسجد کے واش رومز میں جائیں لوگوں کی ہینڈ رائٹنگ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کچھ لوگوں کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی آپ اس کرب اس درد کو کیا جانیں کہ لکھنے والے کا نام نہیں لیکن جس کے لیے لکھا جا رہا ہے اس کا باقائدہ نام تک لکھا جاتا ہے ان عاشق مزاج کی مستی کا اندازہ اس سے بڑھ کر کیا ہو گا آپ کی مساجد جہاں لوگ نماز پڑھنے جاتے ہیں وہ جگہہ بھی شاعری سے محفوظ نہیں آپ سوشل میڈیا پر جائیں ایسی ایسی شاعری سے واسطہ پڑے گا کہ الاماں لوگوں کی ایک فوج ظفر موج ہے جن کی تحریروں میں اس ملک کے بڑے بڑوں کو لتاڑا جاتا ہے اور بھی لوگ ہیں جن کا تعلق اور ملکوں سے ہے ان لوگوں کا سیاسی شعور ہم سے بلند ہو گا لیکن ان ملکوں کے لوگ ایسی شاعری سے دور ہیں اور پھر بھی سیاسی طور پر سماجی طور پر ہم سے بہت بہتر حالات میں ہیں ۔ہم جانے کون سی دنیا بسانے جا رہے ہیں جس میں بس شاعری ہی ہو گی ۔ ترقی بھی شاعرانہ تبدیلی بھی شاعرانہ سماج بھی شاعرانہ اناج بھی شاعرانہ دیگر ملکوں کی شاعری بھی نظر آتی ہے لیکن وہ بس بدن کی حد تک فیشن کی حد تک انٹر ٹینمنٹ کی حد تک لیکن لڑائیوں اور نفرتوں کی شاعری بس ملک عزیز پاکستان کے سوا کسی اور ملک کسی اور خطہ میں نہ ملے گی اگر اس شاعری اس فضولیات سے فرصت ملے تو اس ملک کا سوچ لیں اب سے بڑا چیلنج اس ملک نے نہیں دیکھا ہو گا لوگ اس کو اکنامک چیلنج کہتے ہیں شائد ان کو یہ سوٹ کرتا ہو گا جو کہتے ہیں لیکن اصل چیلنج اخلاقیات کا ہے جو اب اس ملک سے جا چکی ہے اب کوئی معجزہ ہو جائے اللہ کوئی ایسا لیڈر ایسا رہنما لے آئے جو اس قوم کی اخلاقی سدھار کی کوشش کر سکے ۔کاش ایسا اب ہو جائے ورنہ بہت ممکن ہے کہ بہت دیر سے کوئی آئے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Comments

Popular posts from this blog

Bay Nazeer Bhuto The Great Leader

بے نظیر بھٹو ایک طلسماتی شخسیت! یہ ایک ٹھنڈی اور اندھیری شام تھی میں اپنی عادت کے مطابق اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی ،نجانے  اس گھپ اندھیرے  میں   کہاں  سے آ رہا تھا  میں   نے پوچھ ہی لیا ،جناب کہاں  سے آ رہے ہو ،شائد وہ جلا بھنا بیٹھا تھا لیے کرخت لہجے  میں   بولا غریبوں  کی لیڈر کو جب مار دیا گیا ہے تو ا ب غریبوں  کے ساتھ ایسا تو ہونا ہے  ۔  میں   نے نوٹ کیا تھا ،آج گاڑیاں  سڑک پر قدرے کم تھیں  ،کیا لیڈر بھائی کون لیڈر کس کی بات کر رہے ہو آپ ،اس کی آنکھوں   میں   آنسو تھے اور بس ،اس نے روتے ہوئے بتایا راولپنڈی  میں   بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا جس کے نتیجے  میں   محترمہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں   ۔ اس وقت پاکستان  میں   موبائل ٹیکنالوجی اتنی عام نہیں  تھی موبائل فون تو تھے لیکن سمارٹ فون اور سوشل میڈیا اتنے عام نہیں  تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے  ۔ اس لیے...

صحافی کا قتل یا قلم کا سر قلم

صبع صبع صحافی ارشد شریف کے قتل کی بری خبر نے کئی سانحات کی یاد دہبارہ تازہ کر دی صانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں گولیاں کھاتے عورتیں اوربزرگ سانحہ ساہیوال میں سہمے بچے اور دہشت کی علامت بنے درندے پھر سانحہ اے پی ایس کو کو ن بھول سکتا ہے خون میں لتھڑی کتابیں اور پھول اور خواب اور اب مقتول صحافی کے درد اور یاس کی تصویر بنے بچے۔سانحات کے بعد مزمتوں تردیدوں اور دلجوئیوں کے سوا ہمیں آتا بھی کیا ہے ؟مہذب ملکوں میں بھی ایسے سانحات ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ دوبارہ اس سے ملتا جلتا واقعہ نہیں ہوتا ہمارے ہاں تو تسلسل کے ساتھ واقعات بلکہ سانحات اور مسلسل بے حسی کی تاریخ طویل ہوتی جا رئی ہے بلا شبہ صحافی کا قتل نہروبی میں ہوا ہے لیکن کیا یہ کم ہے کہ ملک عزیز صحافیوں کیلیے بدترین ممالک کی لسٹ میں ہے اور یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بوجوہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنا پڑا تھا انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کیلیے زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایسی بھی کیا۔۔ تحقیقات سے پہلے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں لیکن اس سانحے سے ہمیں سیکھنا پڑے گا یہ ایک زندگی کا مسلہ نہیں مسلسل اچھے دماغ بیرون ملک ا...

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی اور جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری (علامہ اقبال )

  عمل س ے بنتی ہے زندگی جنت ب ھ ی اور   ج ہ نم ب ھ ی ی ہ خاکی اپنی فطرت می ں ن ہ نوری ہے ن ہ ناری                                     (علام ہ اقبال ) کسی کو وش کرنا ہو کسی کو کس کرنا ہو کسی کو ملنا ہو کسی کو بہت مس کرنا ہو                                         خریدار بلانا ہو کہ خریداری کرنی ہو                                        حا ل پوچھنا ہو کسی کی تیمارداری کرنی ہو وائے ناٹ مری جاں دل سے کھیل کھیل دل میں ہے مور سے زیادہ او نو نو عوام مشکل میں ہے                    ...